بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو کہا: آئندہ اگر تم نے میرے گھر والوں کے خلاف ایسی بات کی تو تمہیں تین طلاقیں خود بخود ہوجائیں گی


سوال

بیوی نے شوہر کو اس کی ماں کے بارے میں کچھ مخصوص الفاظ بولے، جس پر شوہر نے غصہ میں آ کر بیوی کو فون پر کہا کہ: " آئندہ اگر تم نے میرے گھر والوں کے خلاف ایسی (ایسی کے لفظ کے بجائے بیوی کا کہنا ہے کہ شوہر نے "کوئی بھی"  کا لفظ استعمال کیا تھا ،مگر شوہر بضد ہے کہ ایسی بولا تھا) الٹی سیدھی بات کی تو تمہیں تین طلاقیں خودبخود ہوجائیں گی"،  شوہر کا کہنا ہے کہ اس کی نیت صرف ان الفاظ سے متعلق تھی جو بیوی نے لڑائی کے دوران ماں کے لیے بولے تھے، بیوی نے چوں کہ صرف ماں کے خلاف مخصوص الفاظ بولے تھے، اس لیے جب شوہر نے گھر والوں کا کہا تو نیت صرف ماں کی تھی، کیوں کہ گھر والوں کے خلاف بیوی نے کچھ نہیں کہا اور یہ کہ صرف شوہر کے ہی سامنے بولنا شرط تھا۔ اس کے بعد بیوی نے وہ مخصوص الفاظ کبھی بھی شوہر کے سامنے ماں کے لیے نہیں بولے، البتہ شوہر کی غیر موجودگی میں بولے ہیں  اور شوہر کو خبر کر دی گئی کہ بیوی نے ان الفاظ کا استعمال اس کی غیر موجودگی میں کیا ہے۔ شوہر نے  اس بابت فتوی بھی منگوایا ہے،  جس کے مطابق طلاق اسی وقت ہو گی جب بیوی وہی مخصوص الفاظ شوہر کے سامنے اس کی ماں کے لیے بولے گی۔

متذکرہ بالا مسئلہ کا قران و سنت کی روشنی میں امر صادر فرمایا جائے کہ آیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ فریقین کا ایک بچہ بھی ہے اور شوہر ہر ممکن بیوی کو بسانا چاہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے ذہن میں طلاق دینے کی بات نہیں تھی، مقصد صرف ایک حد لگانا تھا اور تنبیہ کرنا تھا۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی کو  یہ جملہ کہا کہ " آئندہ اگر تم نے میرے گھر والوں کے خلاف ایسی  الٹی سیدھی بات کی تو تمہیں تین طلاقیں خودبخود ہو جائیں گی" تو  جب  بیوی نے یہ مخصوص جملے دوبارہ، شوہر کی والدہ کے لیے کہے، اگرچہ  شوہر کی غیر موجودگی میں کہے، تب بھی تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،  اب شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا اور دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

باقی آپ نے جس فتوی کا ذکر کیا اس کے سوال میں ممکن ہے، شوہر نے کچھ اور وضاحت لکھی ہو یا سوال تبدیل ہو، لہذا اس فتوی کا سوال و جواب دیکھے بغیر اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 743) :

"الأصل: أن الأيمان مبنية عند الشافعي على الحقيقة اللغوية، وعند مالك على الاستعمال القرآني، وعند أحمد على النية، وعندنا على العرف ما لم ينو ما يحتمله اللفظ فلا حنث في لا يهدم إلا بالنية، فتح.
 (الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض فلو) اغتاظ على غيره و (حلف أن لا يشتري له شيئا بفلس فاشترى له بدرهم) أو أكثر (شيئا لم يحنث."

و في الرد:

"(قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد، لايحنث بركوبه إنسانًا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتي وقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر، ولهذا قال في تلخيص الجامع الكبير وبالعرف يخص ولا يزاد حتى خص الرأس بما يكبس ولم يرد الملك في تعليق طلاق الأجنبية بالدخول اهـ۔"

الفتاوى الهندية (1/ 420):

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقًا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں