بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا والدین سے ملاقات کا حق کتنے دن بعد ہے؟


سوال

شرعی طور پر شوہر  کتنے وقت بعد بیوی کو اس کے والدین کے پاس ملاقات کے لیے لے جائے،اور بیوی کتنے وقت بعد جانے کا تقاضا کرسکتی ہے؟اور کیا آنے جانے کا خرچا شوہر کے ذمے ہے یا بیوی اپنے والدین سے سفری اخراجات کا مطالبہ کرے؟

جواب

شوہر کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے والدین سے بات چیت کرنے یا ملاقات سے منع کرے، ملاقات کرنے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر والدین اس کے پاس آسکتے ہیں تو وہ آئیں، ملاقات کر کے چلے جائیں، اور اگر ان کے لیے آنا ممکن نہ ہو تو ہفتے میں ایک بار ان سے ملنے جاسکتی ہے، لیکن آنے جانے کا خرچہ بیوی اپنے شوہر سے لے گی، والدین سے مطالبہ کرنا جائز نہیں، تاہم اگر وہ اپنی رضا و خوشی سے دیں تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم اگر وہ دوسرے شہر میں رہتے ہوں اور ہرہفتے آمد و رفت مشکل ہو یا شوہر خرچا برداشت نہ کرسکتا ہو تو شوہر کو بقدرِ گنجائش مناسب وقفے کے بعد ملاقات کے لیے بھیجنا چاہیے۔

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدًا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك، قال بعضهم: لايمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا -رحمهم الله تعالى-، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان، وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى، كذا في غاية السروجي، وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر؟ وقال مشايخ بلخ: في كل سنة، وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل، كذا في فتاوى قاضي خان، وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا، هكذا في الهداية". (الفتاوى الهندية ، کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، الفصل الثانی (11/415) ط: دار الفکر) فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں