بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے بیوی کو نصیحت کرنے کے حوالے سے راہ نمائی


سوال

شوہر اپنی بیوی کو کب سمجھا سکتا ہے؟  اگر پڑھی لکھی ہو یا جاہل ہونے کی صورت میں؟ ساتھ میں یہ کہتی ہو کہ میں پڑی لکھی ہوں،  مجھے سمجھا نے کی ضرورت نہیں۔اور میں تمہاری ملکیت نہیں،  میں تمہاری بیوی ہوں۔آیا اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر بیوی سے کوئی غلطی ہوجائے تو شوہر کو شریعتِ  مطہرہ نے حق دیا ہے کہ وہ بیوی کو  حکمت و محبت سے سمجھائے اور نصیحت کرے، بیوی پر شوہر  کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے، چاہے بیوی پڑھی لکھی ہو یا اَن پڑھ ہو، دونوں صورتوں کا ایک ہی حکم ہے۔  شوہر کے سمجھانے اور نصیحت کرنے پر  بیوی کو دل سے اس کی نصیحت قبول کرنی چاہیے اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، بشرطیکہ شوہر کسی خلافِ شرع کام کی تلقین نہ کرے، شوہر کے سمجھانے اور نصیحت کرنے پر بیوی کا یہ کہنا کہ ’’میں پڑھی لکھی ہوں، مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں اور میں تمہاری ملکیت نہیں ہوں‘‘ شرعاً درست نہیں ہے۔

قطع نظر شوہر کی نصیحت کے، ہر انسان نصیحت کا محتاج ہے، انسان کا کمال یہ ہے کہ خواہ وہ اونچے سے اونچے منصب پر فائز ہو، اگر کوئی جائز اور درست بات کی نصیحت کرے تو وہ اسے قبول کرے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک مرتبہ قرض خواہ نے برا رویہ اختیار کیا، (جو کہ ناحق تھا) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ گراں گزرا، چناں چہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرض خواہ کو ڈرانے وغیرہ کا اشارہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے جب یہ دیکھا تو ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ یہ (قرض خواہ) اور میں (رسول اللہ ﷺ) اس طرزِ عمل کے بجائے نصیحت (خیرخواہی کی بات) کے زیادہ مستحق تھے، تم اسے کہتے کہ قرض کا مطالبہ اچھے طریقے سے (اخلاق سے) کرو، اور مجھے کہتے کہ قرض اچھے طریقے سے ادا کرو۔  حال آں کہ ابھی قرض کی مدت باقی تھی، اور قرض خواہ کا انداز گستاخانہ تھا، اس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کے حلم و برداشت کا امتحان لینا بھی مقصود تھا۔ بہرحال آپ ﷺ نے ختمِ نبوت و سیادۃ رُسل کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہونے کے باوجود نہ صرف اسے حق دیا بلکہ اپنے امتیوں کی بھی تربیت فرمادی کہ وہ ہرحال میں ہر ایک کی خیرخواہی چاہیں، اور ہر ایک خود کو نصیحت کا محتاج سمجھے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا} [النساء: 34]

ترجمہ: مرد عورتوں پر اس لیے حاکم ہیں کہ خدا نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے بھی کہ وہ اپنا مال صرف کرتے ہیں،  پھر جو نیک بیویاں ہیں وہ تو خدا کی عنایت سے مرد کی تابع دار  ہیں (اور) غائبانہ (ہر چیز) کی حفاظت کیا کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی کا ڈر ہو تو (اول مرتبہ) ان کو سمجھا دیا کرو اور پھر ان کے ساتھ صحبت داری کرنا ترک کر دو اور اگر پھر بھی نہ سمجھیں تو ان کو مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو تم بھی ان پر کوئی چھُدّا (بہانہ) نہ ڈھونڈو کیوں کہ اللہ (سب سے) بڑا بالادست ہے۔ (ترجمہ مأخوذ از تفسیر حقانی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں