بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کو کسی سابقہ گناہ پر طعنے دینا


سوال

اگر ایک شخص مثلاً خاوند ایک گناہ کا مرتکب ہوا(کسی اور لڑکی کو پسند کیا، مگر اس کے سامنے اظہارکبھی نہیں کیا, کوئی غلط فعل نہیں کیا،  بلکہ گھر والوں سے نسبت کا تقاضا کیا ) اپنی سابقہ زندگی میں, لیکن اس نے توبہ کی دین کی زندگی اختیار کی، لیکن اس کی بیوی گاہے بگاہے اس کو اس عمل کی یاد دھانی کروا کر ذلیل کرتی ہے، (تم عشق لڑاتے تھے فلاں کے ساتھ وغیرہ وغیرہ) ایسے میں شوہرکے لیے کیا حکم ہے؟  جب کہ شوہراس کو کوئی جواب نہ دے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو مذکورہ شخص کی بیوی کا یہ طرزِ عمل شرعاً غلط اور ناجائز ہے، اس لیے  اگر شوہر نے کسی دوسری لڑکی سے ناجائز تعلقات نہیں رکھے، بلکہ اس سے جائز رشتہ استوار کرنے کے لیے گھر میں اس سے نکاح کا مطالبہ کیا تو اگر وہ دونوں بیویوں میں برابری کرسکتا تھا اور دونوں کے حقوق ادا کرسکتا تھا تو اس کا یہ مطالبہ بھی درست تھا، شرعاً مرد کو  بیویوں کے درمیان انصاف کرسکنے کی صورت میں چار شادیوں تک کی اجازت ہے۔

اور اگر دوسری لڑکی سے نکاح کے بغیر تعلقات رکھے تھے جو اگرچہ بات چیت کی حد تک ہی ہوں، گناہ تھے، لیکن جب وہ اس سے توبہ وتائب ہوگیا ہے تو اس کا عار دلانا قطعاً جائز نہیں ہے،  شریعتِ مطہرہ میں اس کی ممانعت وارد ہے، بلکہ احادیث کی رو سے یہ اندیشہ بھی ہے کہ اس شخص کو تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں لیکن گناہ کا طعنہ دینے والے کو خود  اس گناہ میں مبتلا کردیا جائے، لہذا کسی مسلمان کو  گناہ پر طعنہ دیناجائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو تو اس کی اصلاح کی غرض سے اس کو نصیحت کی جائے جس سے وہ گناہ چھوڑدے،  اور اس کے عیوب پر پردہ ڈالا جائے، نہ کہ گناہ چھوڑنے والے شخص کو سابقہ گناہوں پر طعنہ دیا جائے۔

بالخصوص بیوی پر شوہر کے بہت زیادہ حقوق ہیں، شریعتِ مطہرہ میں ان کی بہت تاکید آئی ہے، بیوی کے لیے تو شوہر کے سامنے ایسی نازیبا گفتگو  بالکل بھی زیب نہیں دیتی، لہذا اس سےآئندہ کے لیے اجتناب کیا جائے۔

شرح بلوغ المرام (الجزء الثامن) - من عير أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله:

"وعن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم: « من عير أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله ». أخرجه الترمذي وحسنه، وسنده منقطع. بل سنده ضعيف جداً ولايكفي قوله: منقطع -رحمه الله- هو منقطع من رواية خالد بن معدان وهو لم يدرك معاذاً، لا شك أنه لم يدرك معاذاً، معاذ تقدمت وفاته -رضي الله عنه- وفيه أيضا علة من رواية محمد بن الحسن بن أبي يزيد الهمداني، وهو متروك ومنهم من اتهمه، الحديث ضعيف جدا من هذا الطريق من طريق خالد بن معدان عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه-. وجاء في حديث واثلة أيضا عند الترمذي: « لاتظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليك ». وينظر في ثبوته، وهذا المعنى من جنس ما تقدم، يعني أن الإنسان حينما يعير أخاه بذنب هذا يدل على عدم النصح؛ لأن الواجب هو النصيحة لا التعيير، والتعيير والإشاعة بالقول أمر لايجوز، وهذه سيئة والسيئة أخت السيئة، والإنسان يبتلى بجنس السيئة التي وقع فيها من جهة أنه عير أخاه بهذا الذنب، وربما يكون أخوه معذوراً، وهو لايدري، قد يكون تاب، وقد يكون وقع هفوة. ثم أيضا الواجب النصح، حتى ولو فرض أنك تعلم أنه أصر فلا يجوز التعيير، ولهذا النبي عليه الصلاة والسلام قال: « إن زنت أمة أحدكم فليجلدها الحد ولايثرب عليها ». نهى عن التبكيت، فلايجوز، والنبي عليه الصلاة والسلام قال لما قال رجل وهو عبد الله حماراً الذي يلقب بحمار، جاء من عدة أخبار من البخاري وغيره، فقال رجل: أخزاه الله، قال: « لاتعينوا الشيطان على أخيكم ». وفي لفظ: "لعنه الله" فنهى عليه الصلاة والسلام وقال: « ما علمت أنه يحب الله ورسوله »، وهذا يبين أن الواجب هو النصح. ثم الإنسان إذا أذنب في ذنب إن كان فيه حد وقد أقيم عليه الحد فقد ارتفعت التبعة، فإن تاب فاجتمع له مطهرة، وإن كان ليس فيه حد فإن كان استتر فيه فلايجوز إشاعته ولاتستعير فالواجب أن تستره، وإن كان قد أظهره، فالواجب أن يسلك معه ما يسلك مع أمثاله من نصحه وتوجيهه، فإن أصر على المجاهرة، فلا يترك يعيث شراً وفساداً، أما التعيير فليس طريق إلى الإصلاح بل هو طريق إلى فساد، وأن يزيد من الولوع بهذا المنكر وهذا الذنب حينما يعير به ويعلم أنه قد ظهر واشتهر، وذنوب أهل الإسلام عيب في أهل الإسلام فالواجب عليه أن يسترها، ولهذا يقول النبي عليه الصلاة والسلام كما روى عقبة بإسناد جيد عقبة بن عامر -رضي الله عنه- لما دعي إلى قوم وقيل: إنهم يشربون الخمر، فقال: إن يبدو لنا أمر نأخذ به كما قال ابن مسعود -رضي الله عنه- ثم قال: « من رأى عورةً فسترها فكأنما أحيا موءودة » الله أكبر، شوف من رأى عورة، نكرة في سياق النفي يشمل كل عورة، وهذا يبين أن هذه الذنوب عورات والعورات الواجب سترها، ولا أقبح من العورات بين أهل الإسلام فالواجب على الإنسان أن يستر عورته وأعظم العورات هو الذنوب؛ لأن الله مطلع وحرمها، ثم تأتي أنت وقد يكون هذا الذي أذنب استتر فتعيره، فيكون ذنب الذي عير أعظم من الواقع فيها، وهذا قد يكون هو عين الإصابة في الذنب أو فعل الذنب؛ لأنه يكون إثمه أعظم، وربما يئول به أن يقع في مثل هذا الذنب، فلهذا جاء النهي عنه، نعم. (1) الترمذي : صفة القيامة والرقائق والورع (2505). (2) الترمذي : صفة القيامة والرقائق والورع (2506). (3) البخاري : البيوع (2234) , ومسلم : الحدود (1703) , والترمذي : الحدود (1440) , وأبو داود : الحدود (4470) , وابن ماجه : الحدود (2565) , وأحمد (2/376) , ومالك : الحدود (1564) , والدارمي : الحدود (2326). (4) البخاري : الحدود (6777) , وأبو داود : الحدود (4477) , وأحمد (2/299). (5) البخاري : الحدود (6780). (6) أبو داود : الأدب (4891) , وأحمد (4/158) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں