میں اور میری بیوی 2 مئی 2017ء سے دبئی آئے ہوئے تھے اور کرائے کے فلیٹ میں رہ رہے تھے، مئی 28، 29 کی درمیانی شب ، سن 2017ء (تیسرے روزے کی رات)میں نے شراب پی رکھی تھی، رات کو میرے اس فلیٹ پر میری سالی بھی آئی ہوئی تھی، اپنے بچوں کے ساتھ اپنی ساس سے جھگڑا کرکے۔ پورا ایک مہینے سے ہر وقت وہ ہمارے اوپر سوار رہتی تھی جو کہ مجھے پسند نہ تھا۔ اُس رات میری بیوی اور سالی سے تو تو میں میں ہوگئی، میں ناراض ہوکر اپنی بہن کے ڈرائیور کو بلواکر گھر چلا گیا۔ جب میں وہاں سے گاڑی میں جارہا تھا تو میں نے اپنے ہم زلف جو کہ میرا بچپن کا دوست ہے، کو کال کی، مگر اس نے نہیں اٹھائی۔ میں نے اپنی بہن کی ساس جو کہ اس وقت سحری کے لیے اٹھی تھیں، کو سارا قصہ سنایا۔ اس نے کہا: کوئی بات نہیں، تم یہاں رہ لو، کل وہ لوگ صحیح ہوجائیں گے۔ میں سحری کرکے سوگیا۔ دوسرے دن شام کو کپڑے لینے گیا ، فلیٹ پر تو کوئی نہ تھا، میں کپڑے لے کے واپس آگیا۔ تیسرے دن صبح کو میری بہن کا پاکستان سے فون آیا کہ تمہاری بیوی اور سالی حیدر آباد پہنچ گئے ہیں، اور ٹرک بھرواکر سامان، زیور ، پیسے، گاڑی، کپڑے اٹھواکر جارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سلمان نے رات کو نشے میں فون پر طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا: مجھے میری سوا سال کی بیٹی کی قسم میں نے طلاق نہیں دی۔ میں نے فوراً سامان باندھا اور پاکستان چلاگیا۔ وہاں میں نے اپنی پانچوں بہنوں کو ان کے گھر بھیجا، مگر میرے سالوں اور ان کی بیویوں نے بد تمیزی کی اور ان کو بولا کہ طلاق ہوگئی ہے۔ مذکورہ بالا سوال میں شریعتِ مطہرہ کا حکم کیا ہے؟ کیا واقعی طلاق ہوگئی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کو طلاق دینا یاد نہیں ہے اور آپ کی بیوی کا دعوی ہے کہ آپ نے اسے طلاق دی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس دعوی کو شرعی شہادت (دو مرد یا ایک مرد و دو عورتوں کی گواہی) سے ثابت کرے، اگر وہ اپنے دعوی کو شہادتِ شرعیہ سے ثابت کردے تو طلاق کا ہونا ثابت ہوجائے گا، لیکن اگر وہ اپنے دعوی کو شرعی شہادت سے ثابت نہ کرپائے تو پھر طلاق واقع ہونا ثابت نہیں ہوگا۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ لوگ کسی قریبی مستند دار الافتاء جاکر وہاں کسی مفتی صاحب کو ساری بات بتاکر فیصلہ ان کے سپرد کردیں، پھر وہ شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں جو فیصلہ کریں اس پر آپ دونوں راضی ہوجائیں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201172
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن