بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے علیحدہ ہم شیرہ کے کمرہ میں سونا


سوال

ایک شخص اپنے گھر میں اپنی بیوی کے کمرے میں سونے کی بجائے روز اپنی بہن کے کمرے میں سوتا ہے، کیا یہ عمل جائز ہے؟ بہن طلاق یافتہ ہے؛ اس  لیے میکے میں اُسے ایک کمرہ دیا ہوا ہے۔

جواب

احادیثِ مبارکہ اور فقہی عبارات سے یہی معلوم ہوتاہے کہ عمومی احوال میں میاں بیوی کو ایک ہی بستر یا ایک ہی کمرے میں سونا چاہیے، البتہ بعض مخصوص حالات میں(مثلاً شوہر  یا بیوی بیمار ہو اور آرام کی ضرورت ہو) میاں بیوی جدابھی سوسکتے ہیں۔

اس لیے مذکورہ شخص کو اپنی بیوی ہی کے کمرہ میں سونا چاہیے، بغیر کسی شرعی وجہ یا مجبوری کے بیوی کے کمرہ کو چھوڑ کر مستقل ہم شیرہ کے کمرہ میں سونا درست نہیں ہے۔

فتح الباری میں ہے :

"عن ابن عون، عَن ابن سيرين، قالَ: سألت عبيدة: ما للرجل مِن امرأته إذا كانت حائضاً؟ قالَ: الفراش واحد، واللحاف شتى، فإن لَم يجد بداً رد عليها مِن طرف ثوبه. وهذا إنما يدل على أن الأولى أن لاينام معها متجردةً في لحاف واحد حتَّى يسترها بشيء مِن ثيابه، وهذا لا خلاف فيهِ". (1//417)

فیض القدیر میں ہے :

"وأن السنة أن يبيت الرجل مع أهله في فراش واحد، ولايجري على سنن الأعاجم من كونهم لايضاجعون نساءهم، بل لكل من الزوجين فراش، فإذا احتاجها يأتيها أو تأتيه". (1/398)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولاينبغي له أن يعتزل فراشها؛ لأن ذلك تشبه باليهود وقد نهينا عن التشبه بهم، وروى أن ابن عباس رضي الله عنهما فعل ذلك، فبلغ ميمونة رضي الله عنها فأنكرت عليه، وقالت: أترغب عن سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ كان يضاجعنا في فراش واحد في حالة الحيض". (10/275) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں