بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی دوسرے شہر جانے پر راضی نہ ہو تو شوہر کے لیے اس کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کرنا


سوال

ایک بندے  کی گجرات شہر میں شادی ہوئی ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں، اب وہ رحیم یار خان چلا گیا ہے،  وہاں اس نے کاروبار کر لیا ہے، اب وہ اپنی بیوی کو کہتا ہے میرے ساتھ چلو ، بیوی ساتھ جانے کو نہیں مانتی اور دوسری وجہ یہ بھی ہے اب وہ بندہ گجرات نہیں جاتا، وہاں کوئی مذہبی وجہ سے اختلاف اتنا ہے کہ جان جانے تک اس کو خطرہ ہے تو  کیا وہ بندہ رحیم یار خان میں  دوسری شادی کر سکتا ہے؟ یاد رہے دوسری شادی پہ بیوی راضی بھی نہیں ہے!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر  مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کا مہر مکمل ادا کردیا ہے، اور نکاح کے موقع پر  یہ  شرط بھی نہیں لگائی گئی تھی کہ شوہر بیوی کو دوسرے شہر نہیں لے جاسکتا، اور بیوی کو  باہر لے جانے کی صورت میں اس کو ضرور اور تکلیف پہنچے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو  اس صورت  میں مذکورہ شخص  اپنی بیوی کو  اپنے ساتھ  رحیم یار خان لے جاسکتا ہے،  ورنہ نہیں لے جاسکتا۔

جہاں تک دوسرے شادی کی بات ہے تو اگر وہ ایک سے زائد بیویوں کے حقوق میں عدل وانصاف اور برابری کرسکتا ہے تو دوسری شادی ہر حال میں جائز ہے۔ اور اگر پہلی بیوی ساتھ رہنے پر راضی نہیں اور مذکورہ شخص کے لیے واقعۃً  گجرات جانے میں جان کا خطرہ ہے  اور وہ  زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے  تو کرسکتا ہے، شریعت میں اس کی اجازت ہے، اس کے لیے پہلی بیوی رضامندی شرعاً ضروری نہیں ہے، البتہ اگر گجرات جانے میں جانے کا خطرہ نہ ہو تو چار مہینے میں ایک مرتبہ بیوی کے پاس جانا اس کا حق ہے، لہذا شوہر پر  لازم ہے کہ ہر چار مہینے میں ایک مرتبہ اپنی اس بیوی کے پاس آئے، تاکہ اس کی حق تلفی نہ ہو، چار مہینہ سے زیادہ اس کی رضامندی کے بغیر اس سے دور رہنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويسافر بها بعد أداء كله) مؤجلاً ومعجلاً (إذا كان مأموناً عليها وإلا) يؤد كله، أو لم يكن مأموناً (لا) يسافر بها وبه يفتى كما في شروح المجمع واختاره في ملتقى الأبحر ومجمع الفتاوى واعتمده المصنف وبه أفتى شيخنا الرملي، لكن في النهر: والذي عليه  العمل في ديارنا أنه لايسافر بها جبراً عليها، وجزم به البزازي وغيره. وفي المختار: وعليه الفتوى. وفي الفصول: يفتى بما يقع عنده من المصلحة (وينقلها فيما دون مدته) أي السفر (من المصر إلى القرية وبالعكس) ومن قرية إلى قرية لأنه ليس بغربة، وقيده في التتارخانية بقرية يمكنه الرجوع قبل الليل إلى وطنه، وأطلقه في الكافي قائلاً: وعليه الفتوى.

 (قوله: وجزم به البزازي) كذا في النهر مع أن الذي حط عليه كلام البزازي تفويض الأمر إلى المفتي، فإنه قال: وبعد إيفاء المهر إذا أراد أن يخرجها إلى بلاد الغربة يمنع من ذلك؛ لأن الغريب يؤذى ويتضرر لفساد الزمان، ... واختار في الفصول قول القاضي، فيفتي بما يقع عنده من المضارة وعدمها؛ لأن المفتي إنما يفتي بحسب ما يقع عنده من المصلحة، . اهـ. فقوله: فيفتي إلخ صريح في أنه لم يجزم بقول الفقيه ولا بقول القاضي، وإنما جزم بتفويض ذلك إلى المفتي المسئول عن الحادثة، وأنه لاينبغي طرد الإفتاء بواحد من القولين على الإطلاق، فقد يكون الزوج غير مأمون عليها يريد نقلها من بين أهلها ليؤذيها أو يأخذ مالها، بل نقل بعضهم أن رجلاً سافر بزوجته وادعى أنها أمته وباعها فمن علم منه المفتي شيئاً من ذلك لايحل له أن يفتيه بظاهر الرواية، لأنا نعلم يقيناً أن الإمام لم يقل بالجواز في مثل هذه الصورة.... وقد يتفق تزوج غريب امرأة غريب في بلدة ولايتيسر له فيها المعاش فيريد أن ينقلها إلى بلده أو غيرها وهو مأمون عليها، بل قد يريد نقلها إلى بلدها فكيف يجوز العدول عن ظاهر الرواية في الصورة والحال أنه لم يوجد الضرر الذي علل به القائل بخلافه بل وجد الضرر للزوج دونها فنعلم يقيناً أيضاً أن من أفتى بخلاف ظاهر الرواية لايقول بالجواز في مثل هذه الصورة ...  قلت: وفيه أنه بعد تصريح الكافي بأن الفتوى على جواز النقل، وفي قول القنية: إنه الصواب كيف يكون ضعيفاً، نعم لو اقتصر على الترجيح بفساد الزمان لكان أولى، لكن ينبغي العمل بما مر عن البزازية من تفويض الأمر إلى المفتي، حتى لو رأى رجلاً يريد نقلها للإضرار بها والإيذاء لايفتيه ولا سيما إذا كانت من أشراف الناس ولم تكن القرية مسكناً لأمثالها، فإن المسكن يعتبر بحالها كالنفقة كما سيأتي في بابها".(3/ 146، 147،  کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:  

"(و) صح (نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر". (3/ 48،  کتاب النکاح، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا كانت له امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى وخاف أن لايعدل بينهما لايسعه ذلك وإن كان لايخاف وسعه ذلك". (1/ 341،  کتاب النکاح،  الباب الحادی عشر فی القسم، ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں