بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کے لیے مجبوری میں بینک کی پنشن اور مراعات استعمال کرنا / سودی قرض سے لیے گئے مکان کا حکم


سوال

مجھے آپ سے سودی بینک کی کمائی سے متعلق پوچھنا ہے،  میں بیوہ ہوں، میری عمر اکیاون سال ہے،  میری چار بیٹیاں ہیں، سب سے بڑی بیٹی کی عمر چھبیس سال ہے، اور وہ شادی شدہ  ہے، باقی تین بیٹیوں کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، اور میری دوسری بیٹی کی عمر تئیس سال ہے، تیسری بیٹی کی عمر انیس سال ہے اور چوتھی بیٹی سترہ  سال کی ہے،  اور چار بیٹیوں کے بعد دو چھوٹے بیٹے ہیں، ایک  بیٹے کی عمر چودہ  سال ہے اور دوسرے کی گیارہ  سال ہے۔ میرے شوہر کا انتقال پانچ سال پہلے ہوچکا ہے، میرے شوہر نیشنل بینک آف پاکستان میں ملازمت کرتے تھے اور وہاں تیسرے  گریڈ کے آفیسر تھے، میرے شوہر نے بینک سے لون لے کر ایک فلیٹ بنوایا تھا، جس میں میں ابھی اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہوں اور شوہر کے انتقال کے بعد مجھے نیشنل بینک آف پاکستان سے بیس لاکھ روپے فنڈ کی رقم ملی ہے اور بینک سے ہر ماہ  آٹھ  ہزار روپے پینشن بھی ملتی ہے اور شوہر کے انتقال کے بعد نیشنل بینک آف پاکستان نے مجھے اور میرے بچوں کو  کچھ  ہسپتالوں سے علاج کی سہولت دی ہوئی ہے۔

مجھے ان تمام معاملات کے بارے میں آپ سے پوچھنا ہے، میری راہ نمائی فرمائیں کہ کیا میں اس بینک کی رقم سے بنائے ہوئے فلیٹ میں رہ سکتی ہوں؟ یہ فلیٹ ہی بس میرے پاس رہنے کی جگہ ہے اور بینک سے ملنے والے بیس لاکھ فنڈ اور ہر ماہ   ملنے والی پینشن کے بارے میں بھی آپ  بتادیجیے کہ کیا میں یہ رقم استعمال کرسکتی ہوں؟ اور  آپ یہ بھی بتادیجیے کہ کیا مجھے اس بینک سے ملنے والے فنڈ پر زکاۃ دینی ہوگی یا نہیں؟ اور بینک سے ملنے والی علاج کی سہولت کے بارے میں بھی آپ میری راہ نمائی فرمادیجیے کہ کیا میں یہ سہولت استعمال کرسکتی ہوں؟ ابھی ہمارے گھر میں کوئی جاب نہیں کرتا ہے، میرے ایک دور کے رشتہ دار میری مالی مدد کرتے ہیں، لیکن ان کی دی ہوئی رقم سے میری ضرورتیں پوری نہیں ہوپاتی ہیں اور مجھے پیسوں کی ضرورت رہتی ہے، میرے شوہر کے انتقال کے بعد مجھے نیشنل بینک آف پاکستان سے جاب کرنے کی آفر آئی تھی، لیکن کیوں کہ وہ سودی بینک ہے؛ اس لیے میں نے وہاں جاب نہیں کی تھی، گھر میں کسی بڑے مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے اور میرے بچوں کو کچھ معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جواب

       واضح رہے کہ بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور  سود کا لینا دینا، لکھنا اور اس میں گواہ بننا سب ناجائز  اور حرام ہے، اور بینک  ملازم سود لینے، دینے  یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں  یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں۔

        لہذا بینک  کی ملازمت  ناجائز ہے، اور ملازم کے انتقال کے بعد  بینک سے  ملنے والی پنشن  کی ادائیگی بینک اپنی آمدنی ہی سے کرتا ہے جو کہ سود سے حاصل ہوتی ہے، لہذا یہ عطیہ بھی سود ہے اور اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

       مذکورہ تفصیل کی رو سے آپ کے لیے بینک کی مراعات استعمال کرنا جائز نہیں ہے، جس حد تک ہوسکے اس سے بچنے کی کوشش کریں، اگر کسی اور طریقہ سے بندوبست ہوسکتا ہو  یا  گھر کے اخراجات کے لیے  رشتہ داروں کی طرف سے امداد کافی ہورہی ہو  تو بینک کی پنشن، اور علاج کی سہولیات سے بالکل استفادہ نہ کریں اور اپنے آپ اور اپنے بچوں کو سود کی لعنت سے بچا کر رکھیں، لیکن اگر کسی وجہ سے کہیں اور سے کوئی انتظام نہ  ہورہا ہو تو تب  شدید ضرورت کی بنا پر   بقدر ضرورت استعمال کرکے ساتھ ساتھ توبہ واستغفار کرتی رہیں، اور اللہ سے مدد مانگتی رہیں، اور اسباب کے درجہ میں حلال آمدن کے لیے کوشش کرتی رہیں، جیسے ہی حلال کا بندوبست ہوجائے، حرام کی لعنت سے اپنے آپ کو دور کرلیں۔

      باقی جہاں تک سودی لون لے کر مکان بنانے کا مسئلہ ہے تو بینک سے سود پر قرض لینا اور سود ادا کرنا ناجائز تھا، اس پر توبہ واستغفار ضروری تھا، لیکن قرض کی رقم سے بنایا گیا مکان کا استعمال حرام نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ مکان آپ کے شوہر کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کا ترکہ ہے، آپ اپنے بچوں سمیت اس میں رہائش اختیار کرسکتی ہیں۔

      نیز بینک سے جو فنڈ ملا تھا وہ بھی حرام رقم پر مشتمل تھا، اس کا استعمال کرنا  بھی جائز نہ تھا، اگر وہ رقم موجود ہوتو اس کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیں اور اگر فی الحال موجود نہ ہو    یا استطاعت  نہ ہو تو  بعد میں جب گنجائش ہو اس حرام رقم کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیں اور توبہ و استغفار کریں۔

        اور بینک سے ملنے والے رقم پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

الأشباه والنظائر لابن نجيم (1 / 79):

"وفي القنية والبغية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح (انتهى)".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107200087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں