بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، چار بیٹوں اور چار بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم / بہنوں کو وراثت سے محروم کرنا


سوال

محمد یعقوب سمیت چار بھائی، چار بہن اور ایک ماں ہے، محمد یعقوب کے علاوہ سب بھائی یہ کہتے ہیں کہ ترکہ (سو گز کا مکان)ہم چاروں بھائیوں کا مشترک ہے(بہنوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے ) اور مذکورہ تقسیم کے مطابق محمد یعقوب کے حصے میں 25 گز مکان آرہا ہے۔

از روۓ شرع محمد یعقوب کا حصہ کتنا ہے؟ اگر یعقوب حصہ دینا چاہے تواپنے حصہ میں سے بہنوں کو دینے کی کیا صورت ہوگی؟  25گز مکان محمد یعقوب کے لیے ناکافی ہے اس لیے25 گز اور خرید نا چاہتا ہے، خریدنے کی صورت میں سب پیسے بھائی کو دے گا یا بہنوں کو ان کے حصوں کے تناسب سے دے گا۔کیا صورت اختیار کرے گا؟

جواب

واضح رہے کہ مرحوم کے ترکہ میں جس طرح بیٹوں کاحق و حصہ ہوتا ہے اسی طرح اس کی بیٹیوں  اور بیوہ کا بھی حق و حصہ ہوتا ہے، بیٹوں کا والد کے انتقال کے بعد ترکہ پر خود قبضہ کرلینا اور اپنی بہنوں اور والدہ  کو محروم کردینا ظلم ہے ، جو سخت گناہ اور حرام ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد کے انتقال کے بعد ان کے کل ترکہ میں ان کے تمام شرعی ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کے تناسب سے شریک ہوگئے تھے اور یہ ترکہ ان تمام ورثاء میں مشترک ہوگیا تھا،  اس لیے بھائیوں کا صرف اپنے درمیان مرحوم والد کے ترکہ کو تقسیم کرنا شرعا درست نہیں ہوا، یہ تقسیم ہی غلط ہے، بیٹوں کی طرح بیوہ  اور تمام بیٹیاں  مرحوم  کے ترکہ میں  شریعت کے قانون کے مطابق شریک ہیں ، سائل کے  بھائیوں کا والد کے انتقال کے بعد والد کی جائیداد  پر قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے، بھائیوں  پر لازم ہے  کہ بہنوں کو ان کا حق و حصہ  اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں، حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پر ڈالی  جائے گی،  ایک اور حدیث مبارک میں ہے  کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

حدیث مبارک میں ہے:

عن سعيد بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»

(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعاریۃ1/254ط: قدیمی)

           وفیہ ایضا:

وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه

(باب الوصایا، الفصل الثالث1/266ط : قدیمی)

مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ترکہ میں  سے ان کے حقوقِ  متقدمہ  یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، ان  کے ذمہ   اگر کوئی قرض ہے تو اسے کل ترکہ  میں سے ادا کرنے کے بعد،  اگر انہوں نے  کوئی  جائز وصیت کی ہو تو اسے  ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد  باقی کل منقولہ وغیر منقولہ  ترکہ کو   96 حصوں میں تقسیم کرکے  12 حصے بیوہ کو، 14،14  حصے ہر ایک بیٹے کو، 7، 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

یعنی  100 روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 12.50 روپے، ہر ایک بیٹے کو 14.58 روپے اور ہر ایک بیٹی کو 7.29 روپے ملیں گے۔

اگر ترکہ میں سے دیگر ورثا بہنوں اور والدہ کو حصہ نہ دینے پر مصر ہیں تو  آپ اس شرعی تقسیم کے مطابق اپنے حصے سے زائد بہنوں  اور والدہ کو دے دیں تاکہ کم ازکم آپ پر یہ بوجھ نہ رہے۔

باقی اگر آپ کسی دوسرے وارث سے اس کا حصہ خریدنا چاہتے ہیں تو جس وارث کا حصہ خریدیں گے اس کو قیمت ادا کرنا لازم ہوگا، لیکن بیچنے والے کے لیے اپنے حصے سے زائد دوسرے وارث کا حصہ بیچنا جائز نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200879

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں