بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ پر حج فرض ہے؟


سوال

کیا ایک بیوہ عورت پر  جس  کے پاس  صرف  آمدن  کے  20  لاکھ  روپے  ہوں، اس کا  کھانا، پینا ہمارے  گھر  فری ہو،  اس کے  علاج کا خرچہ بیوہ عورت  خود ہی اٹھائے اپنی طرف سے،  اور  اس چیز  کی بھی گارنٹی نہ ہو کہ وہ ہمارے گھر کب تک رہے گی،  مجھے  بتایئے کہ اس عورت  پر  حج فرض  ہے  یا نہیں؟

جواب

مذکورہ بیوہ خاتون پر اگر اتنا قرض نہیں ہے کہ اسے منہا کرنے کے بعد حج کے اخراجات نہ اٹھاسکے تو اس پر حج فرض ہے، لیکن چوں کہ عورت کا اپنے شوہر یا محرم مرد کے بغیر حج پر جانا جائز نہیں، لہذا جب تک مذکورہ خاتون  کے ساتھ حج پر جانے کے لیے ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی میسر نہ ہو یا محرم میسر ہو،  لیکن عورت اس محرم کے خرچہ کی استطاعت نہ رکھتی ہو تو عورت پر حج فرض کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی، تاہم  اگر زندگی بھر محرم میسر نہ آیا تو اس عورت  پر  حج  کی وصیت کرنا لازم ہوگا، اور اس کے ایک تہائی ترکے میں سے کسی کو حج بدل کے لیے بھیجا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 465):

(قوله قولان) هما مبنيان على أن وجود الزوج أو المحرم شرط وجوب أم شرط وجوب أداء والذي اختاره في الفتح أنه مع الصحة وأمن الطريق شرط وجوب الأداء فيجب الإيصاء إن منع المرض، وخوف الطريق أو لم يوجد زوج، ولا محرم، ويجب عليها التزوج عند فقد المحرم، وعلى الأول لا يجب شيء من ذلك كما في البحر وفي النهر وصحح الأول في البدائع ورجح الثاني في النهاية تبعا لقاضي خان واختاره في الفتح. اهـ.

قلت: لكن جزم في اللباب بأنه لا يجب عليها التزوج مع أنه مشى على جعل المحرم أو الزوج شرط أداء ورجح هذا في الجوهرة وابن أمير حاج في المناسك."

فقطواللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144106200982

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں