بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ عورت کا دوسرا نکاح کرنا


سوال

ایک بیوہ جس کی عمر تقریباً 30 سال ہے،  اس کی اولاد نہیں ہے،  اس نے پوچھا ہے ہے کہ اس کے لیے کیا آگے شادی کرنا ضروری ہے یا اولی ہے یا اگر وہ شادی نہ کرے تو کوئی حرج تو نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بیوہ عورت اگر  بچوں کی تعلیم وتربیت اور ان کے مستقبل کی خاطر دوسرا نکاح نہیں کرتی، اور وہ صبرواستقامت اور عفت وپاک دامنی کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہو تو اس کے لیے یہ فضیلت کا باعث ہے،  لیکن اگر اس کے لیے عفت اور پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو اور  فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو یا نان ونفقہ کا بندوبست نہ ہو تو اس کو نکاح کرلینا چاہیے اور جس قدر فتنے کا امکان زیادہ ہو اس قدر دوسرے نکاح کی تاکید بھی زیادہ ہوگی۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ خاتون کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے  اور  زمانہ بھی پرفتن ہے، اس لیے اگر مذکورہ خاتون کو مناسب رشتہ مل جائے تو  اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ  نکاح کرکے عفت اور پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

" بعض صورتوں میں نکاحِ ثانی بھی نکاحِ اول کی طرح فرض ہے،  مثلاً عورت جوان ہے، قرائن سے طبیعت میں تقاضا معلوم ہوتاہے،  تجرد (شادی نہ کرنے) میں فساد کا اندیشہ ہے یا نان و نفقہ کی تنگی ہے  اور افلاس میں آبرو اور دین کے ضائع ہونے کا احتمال ہے تو بے شک ایسی عورت کا نکاحِ  ثانی کرنا فرض ہو گا۔"

(اصلاح الرسوم صفحہ ۱۰۴)

"اگر غور صحیح سے کام لیا جائے تو بہ نسبت پہلے نکاح کے (جب کہ وہ کنواری تھی) دوسرا نکاہ اس بیوہ کا اہم ہے؛ کیوں کہ پہلے وہ خالی الذہن تھی۔ مصالحِ زوجیت کا یا تو علم ہی نہیں تھا یا تھا تو علم الیقین تھا (یعنی صرف علم تھا) اور اب اس کو عین الیقین یعنی مشاہدہ ہو گیا ہے،  اس حالت میں وساوس و حسرات کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے،  جس سے کبھی صحت،  کبھی آبرو،  کبھی دین،  کبھی سب برباد ہو جاتے ہیں۔"

(اصلاح انقلاب صفحہ ۳۲)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (13 / 536):

" قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: "أَنَا وَامْرَأَةٌ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ كَهَاتَيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، - وَأَوْمَأَ يَزِيدُ بِالْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ-: "امْرَأَةٌ آمتْ مِنْ زَوْجِهَا ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ حَبَسَتْ نَفْسَهَا عَلَى يَتَامَاهَا حَتَّى بَانُوا أَوْ مَاتُوا". 

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنا وامرأة سفعاءُ الخدَّين).

قال في "اللمعات": السفعة بضم المهملة، نوع من السواد ليس بالكثير، وقيل: هو سواد مع لون آخر، أراد أنها بذلت نفسها، وتركت الزينة والترفه حتى تغير لونها وأسودَّ، لما تكابده من المشقة والضنك إقامة على ولدها بعد وفاة زوجها.

(كهاتين يوم القيامة، وأومأ) أي أشار (يزيد) بن زريع (بالوسطى والسبابة) قال في "فتح الودود": والمراد من أمثال هذه الأحاديث: المبالغة، وإلَّا فدرجات الأنبياء أعلى وأجل.

(امرأة) عطف بيان لامرأة سفعاء، أو بدل منها، أو خبر مبتدأ محذوف، أي هذه إمرأة (آمتْ) بالمد أي تأيمت (من زوجها ذات منصب وجمال حبست نفسها على يتاماهما حتى بانُوا) أي انقطعوا عنها لاستقلالهم، وعدم احتياجهم إليها بالبلوغ (أو ماتوا)".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں