اماں کا کہنا ہے کہ میں ابھی ہوں تو میں کسی کو کچھ نہیں دے رہی، اس کے لیے تحریری فتویٰ لینا ہے، ماں کا کتنا حق ہے؟ دو بیٹیاں ہیں، اُن کا کتنا حق ہے؟ اور ایک بیٹا ہے اس کا کتنا حق ہے؟ ماں بیٹے کی سائڈ ہے، اور بڑی بیٹی کو ایک گھر دیا ہوا ہے، تین گھر بیٹے کے پاس ہیں، بیچ والی بیٹی کو کچھ نہیں دیا ہوا، بابا کے انتقال کو چالیس دن ہونے والے ہیں۔
اگر آپ اپنے والد مرحوم کی جائیداد، مکان وغیرہ کی تقسیم سے متعلق پوچھ رہے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ والد کے ترکہ میں اُن کی بیوہ کا حصہ ساڑھے بارہ فیصد ہو گا، باقی ماندہ یعنی ساڑھے ستّاسی فیصد (٪87.5) کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ایک ایک حصہ (یعنی 21.87 فیصد) ہر ایک بیٹی کو دیا جائے گا اور (43.75 فیصد) بیٹے کو دو حصے دیے جائیں گے۔
یعنی کُل مال کے 32 حصے کر کے 4 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 7 حصے ہر ایک بیٹی کو اور 14 حصے مرحوم کے بیٹے کو ملیں گے۔ کسی ایک کی رضامندی کے بغیر دوسرے کو اس سے زیادہ دینے کی اجازت نہیں ہوگی، لہٰذا اگر بیچ والی بیٹی کو کچھ نہیں دیا تو یہ درست نہیں ہے، اسے بھی دوسری بہن کی طرح اس کا حق دیا جائے۔
مذکورہ صورت میں ترکہ کی تقسیم سے پہلے مرحوم کی جائیداد میں سے اُن کے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں گے، اگر کوئی قرضہ ہو تو اس کو ادا کیا جائے گا، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو بھی ایک تہائی میں سے نافذ کیا جائے گا۔
اور اگر آپ اپنی والدہ کی مملوکہ اشیاء سے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس میں کس کا کتنا حق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شخص کی زندگی میں اُس کی مملوکہ اشیاء اُسی کی ملکیت ہوتی ہیں، نہ تو کسی کا اُس میں حصہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو اس میں کسی قسم کے مطالبہ کا حق ہوتا ہے، اس لیے اگر آپ کی والدہ اپنی جائیداد وغیرہ اپنی زندگی میں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں تو ایسا کرنا بالکل درست ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201292
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن