بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینکوں میں انتظامِ سیالیت کے لیے رائج دو طریقے


سوال

ملائیشیا میں انتظامِ سیالیت (Liqidity Management) کے لیے درج ذیل دو طریقے رائج ہیں جن کا شرعی جائزہ مطلوب ہے کہ آیا قرآن و سنت کی نظر میں یہ درست ہیں یا نہیں؟ازراہِ کرم راہ نمائی فرمائیے:

1- اسلامی بینکوں کے لیے سیالیت کے بندوبست کے لیے مرکزی بینک، اسلامی بینکوں کے ودائع اپنے پاس جمع رکھتا ہے اور ایک عرصے کے بعد ودائع بھی واپس کردیتا ہے اور اپنی طرف سے بطورِ ہدیہ ایک رقم بھی اسلامی بینکوں کو دیتا ہے۔ سیالیت کے لیے یہ بندوبست رائج ہے۔اسلامی بینک بھی اس سے باخبر ہوتے ہیں۔اگر اسلامی بینک کو یہ معلوم ہو کہ اگر میں مرکزی بینک کے پاس رقم ودیعت رکھوں تو مجھے اس پر اضافہ بطورِ  ہدیہ ملے گا تو کیا یہ ارینجمنٹ درست ہے؟

اس ارینجمنٹ کو درج ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں۔ http://iimm.bnm.gov.my/index.php?ch=4&pg=4&ac=22#1

2- اسلامی بینک ،دوسرے بینک کے پاس رہن رکھوانے کے بعد قرضہ لیتا ہے اور جب مقروض بینک قرض ادا کردیتا ہے تو یہ بینک بطورِ  ہدیہ ایک رقم، قرض دینے والے بینک کو ادا کرتا ہے۔کیا یہ طریقہ بطورِ  انتظامِ سیالیت((Liquidity management درست ہے ؟

درج ذیل لنک میں پورا طریقہ کار ملاحظہ فرمایئے۔ http://iimm.bnm.gov.my/index.php?ch=4&pg=4&ac=22#1

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ دونوں طریقوں میں قرض پر مشروط لین دین کا معاملہ  ہے اور قرض پر مشروط نفع سود کہلاتا ہے، پہلی والی صورت میں اگرچہ اسے ودائع کا نام دیا گیا ہے،  لیکن چوں کہ مرکزی بینک اس کو استعمال کرتا ہے؛  اس لیے وہ انتہاءً  قرض ہی ہے، اور دوسری صورت میں قرض ہونا واضح ہے،  اور دونوں صورتوں میں اس قرض پر ہدیہ کے نام سے نفع دیا جارہا ہے جوکہ سود ہے۔

بینک کے نظام کے اس جزئی پہلو سے قطع نظر  مروجہ اسلامی بینکنگ کے نظام پر علماءِ  کرام کو تحفظات ہیں، لہذا بینکوں میں سرمایہ کاری کرنے یا تمویلی معاملات  کرنے سے بہر صورت اجتناب لازم ہے۔فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے ”مروجہ اسلامی بینکاری“ (مکتبہ بینات) کا مطالعہ مفید رہے گا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں