بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے ملازم سے لڑکی کا رشتہ کرنا اور اس کی دعوت کھانا


سوال

حال ہی میں ایک بیٹی کا رشتہ آیا ہے۔ لڑکا بینک کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں کام کرتا ہے جس کا سود سے براہِ  راست تعلق نہیں۔

1-  کیا بینک کی ایسی کمائی جس میں لڑکے کا سودی نظام سے براہِ  راست تعلق نہیں ، ایسی روزی حلال ہے؟

2- اگر بیٹی کی شادی ایسے گھر میں کر دی جائے تو کیا ماں باپ کو اس کا گناہ پہنچے گا ؟

3- کیا ان کے گھر کا کھانا حلال ہے؟ اگر نہیں تو ایسے کھانے کا کیا کیا جائے؟

جواب

1۔۔  بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور  سود کا لینا دینا، لکھنا اور اس میں گواہ بننا سب ناجائز  اور حرام ہے، اور بینک  ملازم سود لینے، دینے  یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں  یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں۔اور ان کو تنخواہ بھی اسی آمدنی سے سی دی جاتی ہے، لہذا بینک  کی ملازمت  ناجائز ہے  اور تنخواہ بھی حرام ہے۔

2۔۔  بینک ملازم سے نکاح کا رشتہ استوار کرنا فی نفسہ جائز ہے؛ البتہ  بینک ملازم کی کمائی حلال نہ ہونے کی وجہ سے مناسب نہیں، اس لیے اگر بینک ملازم کے علاوہ کوئی اور رشتہ ہو یا رشتے کی توقع ہو تو وہاں رشتہ کیا جائے اگرچہ اس کی آمدنی کم ہو  ، کیوں کہ  حرام  کے مقابلے میں حلال  مال  تھوڑا ہی کیوں  نہ ہو  اس میں  سکون اور برکت   ہے،  جب کہ حرام مال خواہ  کتنا ہی زیادہ  ہو اس  میں بے برکتی، تباہی اور بربادی ہے۔ دوسری جگہ دین دار رشتہ موجود ہونے کی صورت میں ایسی جگہ لڑکی کا رشتہ کرنے میں والدین کا مؤاخذہ ہوسکتاہے۔ 

 تاہم اگر کوئی اور رشتہ دست یاب نہیں ہے اور لڑکی کی عمر گزرتی جارہی ہے اور آئندہ رشتہ کی امید نظر نہیں آرہی ہو  تو رشتہ کرلیا جائے  اور اس  لڑکے کو دھیرے دھیرے سمجھایا جائے، اور خود  بینک ملازم کو چاہیے کہ حلال طیب نوکری کی تلاش شروع  کردے اور جیسے ہی کوئی حلال نوکری مل جائے فوراً اسے اختیار کرلے۔

3۔۔ اس میں یہ تفصیل ہے:

الف:   اگر اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو یعنی  صرف یہی بینک کی آمدنی ہو ، اور وہ ا پنی اس متعین حرا م آمدنی سے کھانا  کھلائے یا  ہدیہ دے تو  جانتے بوجھتے ایسے  شخص کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔

ب: اگر اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو، لیکن وہ اپنی اس حرام آمدنی سے کھانا کھلانے کے بجائے   کسی دوسرے شخص سے حلال رقم قرض لے کر  کھانے  کا انتظام کرے، یا مثلاً اسے حلال رقم کسی نے ہدیہ کی ہو اس سے کھانے کا انتظام کرے تو ایسا کھانا کھانا جائز ہے۔

ج:  اگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی ، اور دونوں آمدنی جدا جدا ہوں، تو ایسی صورت میں اگر وہ حرام آمدنی سے  کھانا کھلائے تو اس کا کھانا ، کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر حلال سے کھانا کھلائے تو پھر اس کاکھانا، کھانا  جائز ہوگا۔

د: اگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی  ہو،  اور  یہ دونوں قسم کی آمدنی اس کے پاس اس طرح مخلوط ہو کہ ایک آمدنی کو  دوسری آمدنی سے ممتاز کرنا مشکل ہو، لیکن حلال آمدنی کی مقدار زیادہ ہو اور حرام آمدنی کی مقدار کم ہو تو ایسی صورت میں اس  کا کھانا کھانے  کی گنجائش ہے، لیکن اس صورت میں بھی اگر اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

ہ: اور اگر اس شخص کی آمدنی حلال اور حرام سے مخلوط ہو ، لیکن  آمدنی کی اکثریت حرام ہو تو اس صورت میں  اس کا کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں