بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے ذریعہ سے حج کی قربانی کروانے کا حکم


سوال

 حج کے لیے حج کی قربانی کی رقم بینک میں گورنمنٹ حج سکیم میں جمع کر وا سکتا ہوں ؟  شریعت میں جائز ہے یا نہیں؟

جواب

جو لوگ حج قران یا حج تمتع کرتے ہیں ان کے ذمہ شکرانے کے طور پر حج کی قربانی واجب ہوتی ہے،اس حج  کی قربانی میں بھی وہی شرطیں ہوتی ہیں جو عام قربانی میں ہوتی ہیں یعنی جانور کا ایک خاص عمر کاہونا اور عیب سے خالی ہونا ضروری ہے جب کہ وہاں لاٹ کے لاٹ خریدے جاتے ہیں جس میں قربانی کی شرائط کی رعایت مشکل ہوتی ہے۔مزید یہ کہ قربانی و حلق کروانے کے درمیان ترتیب بھی واجب ہے، یعنی حلق قربانی ہونے کے بعد کروانا چاہیے اور یہ بھی واجب ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص قربانی ہونے سے پہلے حلق کروالے تو واجب چھوٹنے کی وجہ سے اس پر دم لازم ہو جائے گا،بینک والےقربانی اور حلق میں ترتیب کے واجب ہونے کا لحاظ نہیں رکھتے، چنانچہ وہ لاکھوں انسانوں کو حلق کروا کر احرام کھولنے کا ایک ہی وقت دے دیتے ہیں، جب کہ ایک وقت میں اتنی بڑی تعداد  میں قربانی، قریبًا ناممکن  ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ترتیب کا لحاظ ہی نہیں  رکھتے ہیں، لہٰذا جو شخص بینک کے ذریعہ قربانی کروائے گا اسے یقینی طور سے پتہ ہی نہیں چلے گا کہ اس نے حلق قربانی سے پہلے کروایا ہے یا قربانی کے بعد کروایا ہے، لہٰذا بینک کے ذریعہ قربانی کروانے کی صورت میں واجب کے چھوٹنے کا قوی اندیشہ ہے؛  اس لیے  اس بارے میں احتیاط سے کام لیا جائے اور قربانی کی رقم بینک میں جمع کروانے کے بجائے اپنے طور پر قربانی کا انتظام کیا جائے، لیکن اگر کسی وجہ سے  اپنے طور پر قربانی کا انتظام کرنے میں شدید مشقت کا اندیشہ ہو تو ایک دوسری صورت یہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ بینک میں قربانی کی رقم جمع کروانے کے بعد بینک والوں سے اپنی قربانی کے صحیح وقت کا تعین کروالیں اور پھر قربانی کے دن قربان گاہ میں خود جاکر یا اپنے کسی معتمد آدمی کو بھیج کر قربانی کے جانور کا معائنہ کر کے اس بات کا اطمینان بھی کرلیں کہ وہ قربانی کی شرائط پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟ اور اپنے سامنے اپنے نام کے قربانی کے جانور کو ذبح بھی کروالیں، پھر اس کے بعد حلق کروالیں، بہرحال جب تک حاجی کو کسی باوثوق ذریعہ سے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس کی قربانی ہو چکی ہے اس وقت تک اس کے  لیے حلق یا قصر (بال کٹوانا) جائز نہیں ہے، ورنہ دم لازم آئے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 555)

"(أو قدم نسكا على آخر) فيجب في يوم النحر أربعة أشياء: الرمي، ثم الذبح لغير المفرد، ثم الحلق ثم الطواف، لكن لا شيء على من طاف قبل الرمي والحلق؛ نعم يكره لباب وقد تقدم، كما لا شيء على المفرد إلا إذا حلق قبل الرمي لأن ذبحه لا يجب (ويجب دمان على قارن حلق قبل ذبحه) دم للتأخير، ودم للقران على المذهب

والحاصل أن الطواف لا يجب ترتيبه على شيء من الثلاثة وإنما يجب ترتيب الثلاثة الرمي ثم الذبح ثم الحلق، لكن المفرد لا ذبح عليه فيجب عليه الترتيب بين الرمي والحلق فقط. (قوله حلق قبل ذبحه) وكذا لو حلق قبل  الرمي بالأولى بحر، وإنما وضع المسألة في القارن لأن المفرد لا شيء عليه في ذلك لأنه لا ذبح عليه فلا يتصور تأخير النسك وتقديمه بالحلق قبله ابن كمال."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں