بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کی کمائی سے کسی کو حج کروانا


سوال

اگر کوئی صاحب اپنی بینک کی کمائی سے کسی دوسرے صاحب کو حج کروانا چاہتے ہوں تو کیا وہ رقم  دے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

کسی کو حج کے لیے بینک کی کمائی سے رقم دینا درست نہیں؛ کیوں کہ بینک کی کمائی حرام ہے، حدیث شریف  میں ہے کہ جب بندہ حرام مال سے حج کرتا ہے اور تلبیہ یعنی " لبيك اللهم لبيك "  پڑھتا ہے ، تو اللہ تعالی اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تیرا یہ تلبیہ قابلِ قبول نہیں، یہ تجھ پرلوٹایا جاتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص حرام مال سے حج کرنے کے لیے سواری پر سوار ہوکرتلبیہ " لبيك اللهم لبيك "کہتا ہے تو  ایک منادی آواز دیتا ہے کہ تیرا تلبیہ قابلِ قبول نہیں، تیری کمائی حرام، تیری سواری حرام، تیرا توشہ حرام، ثواب کے بغیر گناہوں کے بوجھ کے ساتھ واپس لوٹ اور ناگواریوں کی خوش خبری سن لے۔

واضح رہے کہ فقہاء کرام جو  یہ مسئلہ لکھتے ہیں کہ" حرام مال سے حج ادا کیا جائے تو فرض ادا ہوجائے گا"، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے نادانی میں حرام مال سے حج کرلیا تو اس کا نفسِ فرض تو ادا ہوجائے گا، (یعنی فقہی اعتبارسے تو یہ کہا جائے گا کہ اس کا حج ادا ہوگیا،) لیکن ایسا حج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگا اور اس  پر ثواب نہیں ملے گا ؛ کیوں کہ حرام مال سے حج یا دیگر عبادات کرنے پر بہت سی وعیدیں وارد ہیں ؛ لہٰذا  حرام مال سے نہ تو خود حج کرے، نہ ہی کسی دوسرے کو حرام مال سے حج کروائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143905200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں