بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک ملازم کی موت پر ملنے والی رقم کا حکم


سوال

میرے نانا مرحوم کا انتقال 1984 میں ہوا اور اس وقت وہ نیشنل بینک میں ملازم تھے,  بینک ہر ماہ تنخواہ سے جبری کٹوتی کرتا تھا جو کہ اس وقت کا قانون تھا, ان کے انتقال کے بعد بینک والوں نے مرحوم کی زوجہ (جس کا نام بطور وارث مرحوم نے لکھوایا ہوا تھا) کو کچھ رقم تقریباً 400000 دی، اب وہ رقم مرحوم کی وراثت بنے گی یا موہوبہ کے لیے عطیہ؟  براہِ مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں! اور یہ بھی واضح کر دیں کس کس فنڈ کی مد میں رقم دی گئی ہو گی 1984 کے پاکستانی بینک رولز کے مطابق؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بینک  کی جانب سے ملنے والی مذکورہ رقم ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے، نیز بینک سے ملنے والی کسی بھی قسم کی رقم خواہ وہ کسی بھی فنڈ کے نام سے موسوم ہو، لینا جائز نہیں، اور لینے کی صورت میں اس کا صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا

(قَوْلُهُ: إلَّا فِي حَقِّ الْوَارِثِ إلَخْ) أَيْ فَإِنَّهُ إذَا عَلِمَ أَنَّ كَسْبَ مُوَرِّثِهِ حَرَامٌ يَحِلُّ لَهُ، لَكِنْ إذَا عَلِمَ الْمَالِكَ بِعَيْنِهِ؛ فَلَا شَكَّ فِي حُرْمَتِهِ وَوُجُوبِ رَدِّهِ عَلَيْهِ، وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ: وَقَيَّدَهُ فِي الظَّهِيرِيَّةِ إلَخْ، وَفِي مُنْيَةِ الْمُفْتِي: مَاتَ رَجُلٌ وَيَعْلَمُ الْوَارِثُ أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَكْسِبُ مِنْ حَيْثُ لَايَحِلُّ وَلَكِنْ لَايَعْلَمُ الطَّلَبَ بِعَيْنِهِ؛ لِيَرُدَّ عَلَيْهِ، حَلَّ لَهُ الْإِرْثُ، وَالْأَفْضَلُ أَنْ يَتَوَرَّعَ وَيَتَصَدَّقَ بِنِيَّةِ خُصَمَاءِ أَبِيهِ. اهـ وَكَذَا لَايَحِلُّ إذَا عَلِمَ عَيْنَ الْغَصْبِ مَثَلًا وَإِنْ لَمْ يَعْلَمْ مَالِكَهُ، لِمَا فِي الْبَزَّازِيَّةِ: أَخَذَهُ مُوَرِّثُهُ رِشْوَةً أَوْ ظُلْمًا، إنْ عَلِمَ ذَلِكَ بِعَيْنِهِ لَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُهُ، وَإِلَّا فَلَهُ أَخْذُهُ حُكْمًا، أَمَّا فِي الدِّيَانَةِ فَيَتَصَدَّقُ بِهِ بِنِيَّةِ إرْضَاءِ الْخُصَمَاءِ اهـ.

وَالْحَاصِلُ أَنَّهُ إنْ عَلِمَ أَرْبَابَ الْأَمْوَالِ وَجَبَ رَدُّهُ عَلَيْهِمْ، وَإِلَّا فَإِنْ عَلِمَ عَيْنَ الْحَرَامِ لَايَحِلُّ لَهُ وَيَتَصَدَّقُ بِهِ بِنِيَّةِ صَاحِبِهِ، وَإِنْ كَانَ مَالًا مُخْتَلِطًا مُجْتَمِعًا مِنْ الْحَرَامِ وَلَايَعْلَمُ أَرْبَابَهُ وَلَا شَيْئًا مِنْهُ بِعَيْنِهِ حَلَّ لَهُ حُكْمًا، وَالْأَحْسَنُ دِيَانَةً التَّنَزُّهُ عَنْهُ؛ فَفِي الذَّخِيرَةِ: سُئِلَ الْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ عَمَّنْ اكْتَسَبَ مَالَهُ مِنْ أُمَرَاءِ السُّلْطَانِ وَمِنْ الْغَرَامَاتِ الْمُحَرَّمَاتِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، هَلْ يَحِلُّ لِمَنْ عَرَفَ ذَلِكَ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ طَعَامِهِ؟ قَالَ: أَحَبُّ إلَيَّ فِي دِينِهِ أَنْ لَايَأْكُلَ، وَيَسَعُهُ حُكْمًا إنْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ الطَّعَامُ غَصْبًا أَوْ رِشْوَةً". ( ٥ / ٩٩) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں