بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینات میں جمہوریت کے بارے میں شائع شدہ مضمون اور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کے فتوے کے درمیان مبینہ تضاد کا جواب


سوال

اس سائٹ پر مولانا قاضی محمد نسیم (کلاچی ) کا ایک مضمون ووٹ کی شرعی حیثیت پڑھا  جس کا لنک یہ ہے 

https://www.banuri.edu.pk/monthly-articles/1434/5/45

یہ حضرت بنوری رحمہ اللہ کے فتوی اور بہت سے علماء کے فتاوی کے خلاف دیکھا . علماء ووٹ و جمہوریت اس سب کو کفر اور دھوکہ دہی بولتے ہیں اور اُس مضمون میں اس کام کو نیک کام بولا گیا ہے ؟ حضرت بنوری رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ :

’’ جمہوریت اس دور کا صنمِ اکبر ہے‘‘ 

سوال:’’ میری ایک اُلجھن یہ ہے کہ اسلام میں جمہوریت کی گنجائش ہے یا نہیں؟ کیونکہ میری ناقص رائے کے مطابق “جمہوریت” کی حکومت میں آزاد خیالی اور لفظِ “آزادی” کی وجہ سے مسلمان تمام حدوں سے تجاوز کرجاتے ہیں، جبکہ مذہب “گھر” تک محدود ہوجاتا ہے، حالانکہ “اسلام” نہ صرف ایک بے مثال مذہب ہے بلکہ اس میں خدا کے مستند قوانین سموئے ہوئے ہیں، اور اسلام میں ایک حد میں رہتے ہوئے آزادی بھی دی گئی ہے۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔

ج… بعض غلط نظریات قبولیتِ عامہ کی ایسی سند حاصل کرلیتے ہیں کہ بڑے بڑے عقلاء اس قبولیتِ عامہ کے آگے سر ڈال دیتے ہیں، وہ یا تو ان غلطیوں کا ادراک ہی نہیں کرپاتے یا اگر ان کو غلطی کا احساس ہو بھی جائے تو اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتے۔ دُنیا میں جو بڑی بڑی غلطیاں رائج ہیں ان کے بارے میں اہلِ عقل اسی المیے کا شکار ہیں۔ مثلاً “بت پرستی” کو لیجئے! خدائے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر خود تراشیدہ پتھروں اور مورتیوں کے آگے سر بسجود ہونا کس قدر غلط اور باطل ہے، انسانیت کی اس سے بڑھ کر توہین و تذلیل کیا ہوگی کہ انسان کو – جو اَشرف المخلوقات ہے- بے جان مورتیوں کے سامنے سرنگوں کردیا جائے اور اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخلوق کو شریکِ عبادت کیا جائے۔ لیکن مشرک برادری کے عقلاء کو دیکھو کہ وہ خود تراشیدہ پتھروں، درختوں، جانوروں وغیرہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تمام تر عقل و دانش کے باوجود ان کا ضمیر اس کے خلاف احتجاج نہیں کرتا اور نہ وہ اس میں کوئی قباحت محسوس کرتے ہیں۔ اسی غلط قبولیتِ عامہ کا سکہ آج “جمہوریت” میں چل رہا ہے،

جمہوریت دورِ جدید کا وہ “صنمِ اکبر” ہے جس کی پرستش اوّل اوّل دانایانِ مغرب نے شروع کی، چونکہ وہ آسمانی ہدایت سے محروم تھے اس لئے ان کی عقلِ نارسا نے دیگر نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں جمہوریت کا بت تراش لیا اور پھر اس کو مثالی طرزِ حکومت قرار دے کر اس کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ پوری دُنیا میں اس کا غلغلہ بلند ہوا یہاں تک کہ مسلمانوں نے بھی تقلیدِ مغرب میں جمہوریت کی مالا جپنی شروع کردی۔ کبھی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ “اسلام جمہوریت کا عَلم بردار ہے” اور کبھی “اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح وضع کی گئی، حالانکہ مغرب “جمہوریت” کے جس بت کا پجاری ہے اس کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی ضد ہے، اس لئے اسلام کے ساتھ “جمہوریت” کا پیوند لگانا اور جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرنا صریحاً غلط ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اسلام، نظریہٴ خلافت کا داعی ہے جس کی رُو سے اسلامی مملکت کا سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اَحکامِ الٰہیہ کے نفاذ کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

چنانچہ مسند الہند حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ، خلافت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

“مسئلہ در تعریف خلافت:

ھی الریاسة العامة فی التصدی لاقامة الدین باحیاء العلوم الدینیة واقامة ارکان الاسلام والقیام بالجھاد وما یتعلق بہ من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة واعطائھم من الفییٴ والقیام بالقضاء واقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنھی عن المنکر نیابة عن النبی صلی الله علیہ وسلم۔” (ازالة الخفاء ص:۲)

ترجمہ:… “خلافت کے معنی ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں دِین کو قائم (اور نافذ) کرنے کے لئے مسلمانوں کا سربراہ بننا۔ دِینی علوم کو زندہ رکھنا، ارکانِ اسلام کو قائم کرنا، جہاد کو قائم کرنا اور متعلقاتِ جہاد کا انتظام کرنا، مثلاً: لشکروں کا مرتب کرنا، مجاہدین کو وظائف دینا اور مالِ غنیمت ان میں تقسیم کرنا، قضا و عدل کو قائم کرنا، حدودِ شرعیہ کو نافذ کرنا اور مظالم کو رفع کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔”

اس کے برعکس جمہوریت میں عوام کی نمائندگی کا تصوّر کار فرما ہے، چنانچہ جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے:

“جمہوریت وہ نظامِ حکومت ہے جس میں عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کی اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت حکومت چلاتی ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔”

گویا اسلام کے نظامِ خلافت اور مغرب کے تراشیدہ نظامِ جمہوریت کا راستہ پہلے ہی قدم پر الگ الگ ہوجاتا ہے، چنانچہ خلافت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا تصوّر پیش کرتی ہے، اور جمہوریت عوام کی نیابت کا نظریہ پیش کرتی ہے۔ 

خلافت، مسلمانوں کے سربراہ پر اِقامتِ دِین کی ذمہ داری عائد کرتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کا دِین قائم کیا جائے، اور اللہ کے بندوں پر، اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے مقرّر کردہ نظامِ عدل کو نافذ کیا جائے، جبکہ جمہوریت کو نہ خدا اور رسول سے کوئی واسطہ ہے، نہ دِین اور اِقامتِ دِین سے کوئی غرض ہے، اس کا کام عوام کی خواہشات کی تکمیل ہے اور وہ ان کے منشاء کے مطابق قانون سازی کی پابند ہے۔

اسلام، منصبِ خلافت کے لئے خاص شرائط عائد کرتا ہے، مثلاً: مسلمان ہو، عاقل و بالغ ہو، سلیم الحواس ہو، مرد ہو، عادل ہو، اَحکامِ شرعیہ کا عالم ہو، جبکہ جمہوریت ان شرائط کی قائل نہیں، جمہوریت یہ ہے کہ جو جماعت بھی عوام کو سبز باغ دِکھاکر اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرلے اسی کو عوام کی نمائندگی کا حق ہے۔

جمہوریت کو اس سے بحث نہیں کہ عوامی اکثریت حاصل کرنے والے ارکان مسلمان ہیں یا کافر، نیک ہی یا بد، متقی و پرہیزگار ہیں یا فاجر و بدکار، اَحکامِ شرعیہ کے عالم ہیں یا جاہلِ مطلق اور لائق ہیں یا کندہ ناتراش، الغرض! جمہوریت میں عوام کی پسند و ناپسند ہی سب سے بڑا معیار ہے اور اسلام نے جن اوصاف و شرائط کا کسی حکمران میں پایا جانا ضروری قرار دیا، وہ عوام کی حمایت کے بعد سب لغو اور فضول ہیں، اور جو نظامِ سیاست اسلام نے مسلمانوں کے لئے وضع کیا ہے وہ جمہوریت کی نظر میں محض بے کار اور لایعنی ہے، نعوذ باللہ! 

خلافت میں حکمران کے لئے بالاتر قانون کتاب و سنت ہے، اور اگر مسلمانوں کا اپنے حکام کے ساتھ نزاع ہوجائے تو اس کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رَدّ کیا جائے گا اور کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جائے گا، جس کی پابندی راعی اور رعایا دونوں پر لازم ہوگی۔ جبکہ جمہوریت کا “فتویٰ” یہ ہے کہ مملکت کا آئین سب سے “مقدس” دستاویز ہے اور تمام نزاعی اُمور میں آئین و دستور کی طرف رُجوع لازم ہے، حتیٰ کہ عدالتیں بھی آئین کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کرسکتیں۔ لیکن ملک کا دستور اپنے تمام تر “تقدس” کے باوجود عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ کا کھلونا ہے، وہ مطلوبہ اکثریت کے بل بوتے پر اس میں جو چاہیں ترمیم و تنسیخ کرتے پھریں، ان کو کوئی روکنے والا نہیں، اور مملکت کے شہریوں کے لئے جو قانون چاہیں بناڈالیں، کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔

یاد ہوگا کہ انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے دو مردوں کی شادی کو قانوناً جائز قرار دیا تھا اور کلیسا نے ان کے فیصلے پر صاد فرمایا تھا، چنانچہ عملاً دو مردوں کا، کلیسا کے پادری نے نکاح پڑھایا تھا، نعوذ باللہ!

حال ہی میں پاکستان کی ایک محترمہ کا بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ جس طرح اسلام نے ایک مرد کو بیک وقت چار عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے، اسی طرح ایک عورت کو بھی اجازت ہونی چاہئے کہ وہ بیک وقت چار شوہر رکھ سکے۔

ہمارے یہاں جمہوریت کے نام پر مرد و زن کی مساوات کے جو نعرے لگ رہے ہیں، بعید نہیں کہ جمہوریت کا نشہ کچھ تیز ہو جائے اور پارلیمنٹ میں یہ قانون بھی زیر بحث آجائے۔ ابھی گزشتہ دنوں پاکستان ہی کے ایک بڑے مفکر کا مضمون اخبار میں شائع ہوا تھا کہ شریعت کو پارلیمنٹ سے بالاتر قرار دینا قوم کے نمائندوں کی توہین ہے، کیونکہ قوم نے اپنے منتخب نمائندوں کو قانون سازی کا مکمل اختیار دیا ہے۔

ان صاحب کا یہ عندیہ “جمہوریت” کی صحیح تفسیر ہے، جس کی رُو سے قوم کے منتخب نمائندے شریعتِ الٰہی سے بھی بالاتر قرار دئیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں “شریعت بل” کئی سالوں سے قوم کے منتخب نمائندوں کا منہ تک رہا ہے لیکن آج تک اسے شرفِ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکا، اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام، مغربی جمہوریت کا قائل ہے؟  تمام دُنیا کے عقلاء کا قاعدہ ہے کہ کسی اہم معاملے میں اس کے ماہرین سے مشورہ لیا جاتا ہے، اسی قاعدے کے مطابق اسلام نے انتخابِ خلیفہ کی ذمہ داری اہلِ حل و عقد پر ڈالی ہے، جو رُموزِ مملکت کو سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس کے لئے موزوں ترین شخصیت کون ہوسکتی ہے، جیسا کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا: “انما الشوریٰ للمھاجرین والأنصار۔” ترجمہ:… “خلیفہ کے انتخاب کا حق صرف مہاجرین و انصار کو حاصل ہے۔”

لیکن بت کدہٴ جمہوریت کے برہمنوں کا “فتویٰ” یہ ہے کہ حکومت کے انتخاب کا حق ماہرین کو نہیں بلکہ عوام کو ہے۔ دُنیا کا کوئی کام اور منصوبہ ایسا نہیں جس میں ماہرین کے بجائے عوام سے مشورہ لیا جاتا ہو، کسی معمولی سے معمولی ادارے کو چلانے کے لئے بھی اس کے ماہرین سے مشورہ طلب کیا جاتا ہے، لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ حکومت کا ادارہ (جو تمام اداروں کی ماں ہے اور مملکت کے تمام وسائل جس کے قبضے میں ہیں، اس کو) چلانے کے لئے ماہرین سے نہیں بلکہ عوام سے رائے لی جاتی ہے، حالانکہ عوام کی ننانوے فیصد اکثریت یہی نہیں جانتی کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے؟ اس کی پالیسیاں کیسے مرتب کی جاتی ہیں؟ اور حکمرانی کے اُصول و آداب اور نشیب و فراز کیا کیا ہیں․․․؟ ایک حکیم و دانا کی رائے کو ایک گھسیارے کی رائے کے ہم وزن شمار کرنا، اور ایک کندہ ناتراش کی رائے کو ایک عالی دماغ مدبر کی رائے کے برابر قرار دینا، یہ وہ تماشا ہے جو دُنیا کو پہلی بار “جمہوریت” کے نام سے دِکھایا گیا ہے۔

درحقیقت “عوام کی حکومت، عوام کے لئے اور عوام کے مشورے سے” کے الفاظ محض عوام کو اُلُّو بنانے کے لئے وضع کئے گئے ہیں، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت میں نہ تو عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ عوام کی اکثریت کے نمائندے حکومت کرتے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی کہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کون کون سے نعرے لگائے جائیں گے اور کن کن ذرائع کو استعمال کیا جائے گا؟ عوام کی ترغیب و تحریص کے لئے جو ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جائیں، ان کو گمراہ کرنے کے لئے جو سبز باغ بھی دِکھائے جائیں اور انہیں فریفتہ کرنے کے لئے جو ذرائع بھی استعمال کئے جائیں وہ جمہوریت میں سب روا ہیں۔ اب ایک شخص خواہ کیسے ہی ذرائع اختیار کرے، اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے، وہ “عوام کا نمائندہ” شمار کیا جاتا ہے، حالانکہ عوام بھی جانتے ہیں کہ اس شخص نے عوام کی پسندیدگی کی بنا پر زیادہ ووٹ حاصل نہیں کئے بلکہ روپے پیسے سے ووٹ خریدے ہیں، دھونس اور دھاندلی کے حربے استعمال کئے ہیں اور غلط وعدوں سے عوام کو دھوکا دیا ہے، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود یہ شخص نہ روپے پیسے کا نمائندہ کہلاتا ہے، نہ دھونس اور دھاندلی کا منتخب شدہ اور نہ جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی کا نمائندہ شمار کیا جاتا ہے، چشمِ بد دُور! یہ “قوم کا نمائندہ” کہلاتا ہے۔ انصاف کیجئے! کہ “قوم کا نمائندہ” اسی قماش کے آدمی کو کہا جاتا ہے؟ اور کیا ایسے شخص کو ملک و قوم سے کوئی ہمدردی ہوسکتی ہے․․․؟ عوامی نمائندگی کا مفہوم تو یہ ہونا چاہئے کہ عوام کسی شخص کو ملک و قوم کے لئے مفید ترین سمجھ کر اسے بالکل آزادانہ طور پر منتخب کریں، نہ اس اُمیدوار کی طرف سے کسی قسم کی تحریص و ترغیب ہو، نہ کوئی دباوٴ ہو، نہ برادری اور قوم کا واسطہ ہو، نہ روپے پیسے کا کھیل ہو،

الغرض اس شخصیت کی طرف سے اپنی نمائش کا کوئی سامان نہ ہو اور عوام کو بے وقوف بنانے کا اس کے پاس کوئی حربہ نہ ہو۔ قوم نے اس کو صرف اور صرف اس بنا پر منتخب کیا ہو کہ یہ اپنے علاقے کا لائق ترین آدمی ہے، اگر ایسا انتخاب ہوا کرتا تو بلاشبہ یہ عوامی انتخاب ہوتا اور اس شخص کو “قوم کا منتخب نمائندہ” کہنا صحیح ہوتا، لیکن عملاً جو جمہوریت ہمارے یہاں رائج ہے، یہ عوام کے نام پر عوام کو دھوکا دینے کا ایک کھیل ہے اور بس․․․! کہا جاتا ہے کہ: “جمہوریت میں عوام کی اکثریت کو اپنے نمائندوں کے ذریعہ حکومت کرنے کا حق دیا جاتا ہے” یہ بھی محض ایک پُرفریب نعرہ ہے، ورنہ عملی طور پر یہ ہو رہا ہے کہ جمہوریت کے غلط فارمولے کے ذریعہ ایک محدود سی اقلیت، اکثریت کی گردنوں پر مسلط ہوجاتی ہے! مثلاً: فرض کرلیجئے کہ ایک حلقہٴ انتخاب میں ووٹوں کی کل تعداد پونے دو لاکھ ہے، پندرہ اُمیدوار ہیں، ان میں سے ایک شخص تیس ہزار ووٹ حاصل کرلیتا ہے، جن کا تناسب دُوسرے اُمیدواروں کو حاصل ہونے والے ووٹوں سے زیادہ ہے، حالانکہ اس نے صرف سولہ فیصد حاصل کئے ہیں، اس طرح سولہ فیصد کے نمائندے کو ۸۴ فیصد پر حکومت کا حق حاصل ہوا۔ فرمائیے! یہ جمہوریت کے نام پر ایک محدود اقلیت کو غالب اکثریت کی گردنوں پر مسلط کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے․․․؟

چنانچہ اس وقت مرکز میں جو حکومت “کوس لمن الملک” بجا رہی ہے، اس کو ملک کی مجموعی آبادی کے تناسب سے ۳۳ فیصد کی حمایت بھی حاصل نہیں، لیکن جمہوریت کے تماشے سے نہ صرف وہ جمہوریت کی پاسبان کہلاتی ہے بلکہ اس نے ایک عورت کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا ہے۔ الغرض! جمہوریت کے عنوان سے “عوام کی حکومت، عوام کے لئے” کا دعویٰ محض ایک فریب ہے، اور اسلام کے ساتھ اس کی پیوندکاری فریب در فریب ہے، اسلام کا جدید جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں، نہ جمہوریت کو اسلام سے کوئی واسطہ ہے، “ضدان لا یجتمعان” (یہ دو متضاد جنسیں ہیں جو اکٹھی نہیں ہوسکتیں)۔

جواب

جواب سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ سائل نے اپنے سوال میں جس تحریر کو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے اُس کی نسبت میں سائل کو غلط فہمی ہوئی ہے، کیوں کہ جمہوریت سے متعلق مذکورہ جواب حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کا لکھا ہوا ہے، اور یہ سوال و جواب ان کی کتاب " آپ کے مسائل اور اُن کا حل، ج:7، ص:657، ط: مکتبہ لدھیانوی" میں موجود ہے۔ اس لیے اس تحریر کی نسبت حضرت  مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔

الغرض جہاں تک موجودہ جمہوری نظام کی بات ہے تو  موجودہ جمہوری  نظامِ حکومت اور طرزِ انتخاب چونکہ غیروں کی نقالی کر کے لیا گیا ہے اس لئے یہ نظام مکمل  اسلامی اصولوں کے موافق  نہیں ہے اور اس نظام میں بہت سے غیر شرعی امور داخل ہیں، جس کی نشاندہی حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کے مذکورہ جواب میں تفصیل سے کی گئی ہے، البتہ چونکہ فی الوقت یہ نظام ہم پر زبردستی مسلط کردیا گیا ہے؛ اس لئے  اگر کوئی دین اور اہلِ دین کی حفاظت اور دفاع کی نیت سے ممکنہ حد تک مذکورہ خرابیوں سے بچتے ہوئے اس نظام میں شامل ہوکر اسمبلی میں آتا ہے تو اس کی گنجائش ہے۔

اسی طرح عوام  بھی اگر اس نظام کے ذریعہ سے اپنی رائے کا درست استعمال کر کے اہل لوگوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانے کی اپنی سی کوشش کرنے کے لئے ووٹ دینا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے، لیکن کسی نا اہل شخص کو ووٹ دینا بمنزلہ خیانت اور جھوٹی گواہی ہونے کی وجہ سے  بالکل ناجائز اور حرام ہے۔

بینات کے مذکورہ مضمون میں بھی اسی بات کو بیان کیا گیا ہے، اس مضمون میں نہ تو جمہوریت کی تعریف  کی گئی ہے اور نہ ہی اسے نیک کام کہا گیا ہے، لہٰذا بینات میں شائع شدہ مضمون اور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ و دیگر اکابر کے فتاویٰ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143909201086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں