بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کا وائرس پھیلنا


سوال

اگر کسی بیماری کا وائرس ہوجائے (وہ پھیلنا شروع ہوجائے) جیسا کہ چائنا میں آج کل ایک بیماری ہے تو کیا ہم وہاں سے بھاگ سکتے ہیں ایسی صورت میں؟

جواب

واضح رہے کہ اس دنیا میں اللہ نے بہت سی چیزوں کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، لیکن حقیقت میں سارے اسباب اپنا اثر دکھانے میں اللہ کے حکم کے پابند ہیں؛ لہذا نبی کریمﷺ نے دو مختلف موقعوں پر ایسا عمل کیا جس سے یہ دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ ایک مرتبہ نبی کریمﷺکے پاس ایک مجذوم (جذام کی بیماری والا شخص، جس بیماری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ پھیلتی ہے)آیا تو آپﷺ نے اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار آدمی سے یقینی طور پر بیماری لگ جانے کا اعتقاد درست نہیں ہے۔ دوسرے موقع پر ایک مجذوم آپﷺ سے بیعت ہونے کے لیے آیا تو نبی کریمﷺ نے ہاتھ ملائے بغیر ہی اسے بیعت کرلیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط کے درجہ میں بیماری کے ظاہری اسباب سے بچناجائز ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ظاہری سبب کے طور پر پھیلنے والی بیماری کی جگہ یا شخص سے بچنا جائز ہے، تاہم یہ عقیدہ نہ ہو کہ ایسی جگہ میں جانے سے یا رہنے سے یا ایسے شخص کے قرب سے بیماری کا لگنا یقینی ہے۔

اور اگر کسی علاقے میں کوئی وبا (مثلاً طاعون وغیرہ) پھیل جائے تو اس حوالے سے مختلف کتبِ حدیث میں روایات منقول  ہیں کہ جس جگہ طاعون کا مرض پھیل جائے وہاں جانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، اور جہاں آدمی موجود ہو، اور وہاں طاعون کا مرض پھیل جائے تو ڈر کر وہاں سے بھاگنے سے منع فرمایا۔  یہ روایات صحیح اسناد سے ثابت ہیں، بخاری شریف میں ہے :

"حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَعَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ؟ فَقَالَ أُسَامَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ. قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا يُخْرِجْكُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْهُ". (صحیح البخاری ، باب من انتظر حتی تدفن :۴/۱۷۵، ط: دارطوق النجاة)

اسی طرح کی روایت صحیح مسلم ، سنن ابو داؤد ، سنن ترمذی وغیرہ میں موجود ہے ۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے علماءِ کرام نے مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں:

1- جہاں طاعون پھیلا ہو ، وہاں جانے کی صورت میں وبائی مرض کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت  کے سامنے گویا جرأت کا اظہار ہے، اور جہاں موجود ہو  وہاں سے بھاگنا  گویا تقدیر سے بھاگنا ہے جس کاکوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے یہ دونوں کام درست نہیں۔

2- سبب کے درجے میں اگر وبا زدہ علاقے میں جاکر بیماری لگ گئی یا موت آگئی تو لوگ یہ خیال کریں گے کہ یہ وبا کی وجہ سے مرا ہے، حال آں کہ اس کی موت کا وقت متعین تھا، اور وبا میں مبتلا شخص اس علاقے سے نکلا اور اس کی بیماری سبب کے درجے میں دوسرے علاقے کے کسی شخص کو لگ گئی جاہلیتِ اولیٰ کا یہ عقیدہ دوبارہ ذہنوں میں جگہ پکڑے گا کہ بیماریاں ذاتی طور پر متعدی ہوتی ہیں، حال آں کہ یہ سب اللہ کے حکم سے ہوتاہے، ورنہ پہلے شخص  کو بیماری کس سے متعدی ہوکر لگی؟!

بہرحال اس ممانعت کا حاصل یہ ہے کہ جب کوئی اس وبا سے بھاگنا چاہتا ہو تو یہ منع ہے، لیکن اگر کسی ضرورت کی وجہ سے وبا زدہ علاقے کے رہائشی کو باہر جانا ہو اور اس کا یقین پختہ ہو کہ موت زندگی اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے، وہ کسی جگہ بھی بیماری اور وبا میں مبتلا کرسکتا ہے تو بوجہ ضرورت ایسے علاقے سے جاسکتے ہیں، اسی طرح وبا زدہ علاقے میں اگر کسی کو کام ہو (مثلاً ڈاکٹرز اور میڈیکل ٹیمیں یا دیگر رضاکار خدمت کے لیے جائیں) اور اللہ کی ذات پر پختہ یقین ہو کہ بیماری موت دینے والے اللہ ہیں، تو اختیاری تدابیر استعمال کرتے ہوئے وبا زدہ علاقے میں جاسکتے ہیں۔ 

 

"وفي رواية أخرى: فلاتدخلوا عليه، أي يحرم عليكم ذلك؛ لأن الإقدام عليه جراءة على خطر وإيقاع للنفس في التهلكة والشرع ناه عن ذلك، قال تعالى: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة}. (وإذا وقع ) أي الطاعون ( وأنتم ) أي والحال أنتم ( بها ) بذلك الأرض ( فرارا ) أي بقصد الفرار ( منه )، فإن ذلك حرام؛ لأنه فرار من القدر وهو لاينفع، والثبات تسليم لما لم يسبق منه اختيار فيه فإن لم يقصد فرارًا بل خرج لنحو حاجة لم يحرم قاله المناوي في التيسير". (عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون : ۸/۲۵۵)

اور علماء نے طاعون سے وبا مراد لی ہے:
"الطاعون بوزن فاعول من الطعن عدلوا به عن أصله ووضعوه دالا على الموت العام كالوباء ويقال طعن فهو مطعون وطعين إذا أصابه الطاعون وإذا أصابه الطعن بالرمح فهو مطعون هذا كلام الجوهري. 
 وقال الخليل: الطاعون الوباء". (عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون : ۸/۲۵۵)

اس لیے اگر کہیں وبا پھیل جائے تو  اس سے بھاگنے کے بجائے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4 / 1711):
" فر من المجذوم فرارك من الأسد " فإنه محمول على بيان الجواز أو لئلا يقع شيء منه بخلق الله فينسب إلى الإعداء بالطبع ليقع في محذور اعتقاد التأثير لغير الله، وقد عمل النبي صلى الله عليه وسلم بالأمرين ليشير إلى الجوابين عن قضية الحديث فإنه جاءه مجذوم فأكل معه قائلا: بسم الله ثقة بالله وتوكلا عليه، وجاءه مجذوم آخر ليبايعه فلم يمد إليه يده وقال: قد بايعت، فأولا نظر إلى المسبب وثانيا نظر إلى السبب في مقام الفرق وبين أن كلا من المقامين حق، نعم الأفضل لمن غلب عليه التوكل أو وصل إلى مقام الجمع هو الأول والثاني لغيره والله تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144105201122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں