بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع قبل القبض / استصناع کا حکم


سوال

ہم" فش میل" یعنی مچھلی کا پوڈر بنا کے بیچتے ہیں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس "فش میل" فیکٹری میں موجود نہیں ہوتا، ہم پیشگی 100 ٹن کا سودا کرلیتے ہیں جو ایک ڈیڑھ مہینے میں مشتری کو دینا ہوتا ہے، "فش میل" دیتے کبھی ثمن میں فرق ہوتا ہے، یعنی بائع اور مشتری کے درمیان جو ثمن طے پایاہےمبیع کی حوالگی کے وقت مارکیٹ ریٹ کبھی زیادہ ہوتا ہےکبھی کم ہوتا ہے.

کیا اس طرح سودا کرنا درست ہے؟ 

جواب

مذکورہ صورت میں آپ کے پاس مال موجود نہیں ہوتا اور آپ سودا کرلیتے ہیں، اگر آپ سودا کرتے وقت یہ طے کرتے ہیں کہ میں نے آپ کو اتنا مال بیچ دیا تو یہ صورت جائز ہی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ مال آپ کے پاس موجود ہی نہیں ہے۔

البتہ اگر آپ ’’فش میل‘‘ خود بناتے ہیں تو آپ کا مشتری آپ کو یہ مصنوع (پروڈکٹ) بنانے کا آرڈر  دے سکتا ہے کہ  آپ اس تاریخ تک اتنا مال تیار کرکے مجھے دےدیں ، اس میں مال کے تمام اوصاف کا معین کرنا ضروری ہوتا ہے۔

"فنقول: من حکم المبیع إذا کان منقولاً أن لایجوز بیعه قبل القبض إلى أن قال: وأما إذا تصرف فیه مع بائعه، فإن باعه منه لم یجز بیعه أصلاً قبل القبض". (الفتاویٰ الهندیة:ج؍۳،ص؍۱۳،الفصل الثالث في معرفة المبیع والثمن والتصرف) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200668

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں