بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہتان کے حوالے سے احادیث


سوال

بہتان کے حوالے سے ساری احادیث بتا دیں، کیا بہتان لگانے والے شخص کے پیچھے نماز جائز ہے یا ایسے شخص کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے؟

جواب

کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا  آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔

ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے:  جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

ایک روایت میں ہے: جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا ، تہمت ، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں ، تو اللہ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے ، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے (رک جائے ، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے)۔
(مسند أحمد : 7/204 ، سنن أبي داود : 3597 ، ، تخريج مشكاة المصابيح : 3/436 ، ،3542 )

الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے؛ تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔

"عن علي قال: البهتان على البراء أثقل من السموات. الحكيم". (كنز العمال (3/ 802)، رقم الحدیث: 8810)

" لاینبغي لصدیق أن یکون لعانًا". (مشکاة المصابیح۲؍۴۱۱)

" لایرمي رجلٌ رجلاً بالفسوق ولایرمیه بالکفر إلا ارتدت علیه إن لم یکن صاحبه کذلك". (صحیح البخاري، باب ما ینهی عن السباب واللعن، ۲؍۸۹۳رقم:۵۸۱۰، مشکاة المصابیح۴۱۱)

اگر کوئی شخص کسی پر بغیر تحقیق  وثبوت الزام یا بہتان لگاتا ہے تو شرعاً یہ گناہِ کبیرہ ہے، اگر وہ مسلسل اور اعلانیہ طور پر بار بار اس گناہ کا ارتکاب کرتاہے اور توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ صاحبِ حق سے معافی نہیں مانگتا تو اس کی اقتدا میں نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔ اور اگر وہ توبہ کرلیتا ہے یا کسی غلط فہمی کی بنیاد پر کسی کی طرف اس نے خلافِ حقیقت بات منسوب کی ہو  لیکن حقیقتِ حال بتانے کے بعد وہ رجوع کرلے تو ایسے شخص کی اقتدا میں بلاکراہت نماز ادا ہوجائے گی۔

"مرقاۃ المفاتیح "  میں ہے:

"عن ابن عباس مرفوعاً: «لكن البينة على المدعي واليمين على من أنكر». قال النووي: هذا الحديث قاعدة شريفة كلية من قواعد أحكام الشرع، ففيه: أنه لايقبل قول الإنسان فيما يدعيه بمجرد دعواه، بل يحتاج إلى بينة، أو تصديق المدعى عليه". (7/250، باب الأقضیة والشهادات، ط: امدادیه) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں