بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھانجے اور خالہ کے نکاح کا حکم


سوال

میری بیٹی کا نکاح  اپنے بھانجے  کے ساتھ ہوا، اور اس کی شادی کو تقربیاً 10 سال ہوگئے ہیں، میری بیٹی کی عمر تقریباً 28 سال ہے اور ساس نے ایک مسئلہ اٹھایاہوا ہے کہ میں نے اس کو اپنا دودھ پلایا ہے، لیکن ابھی تک کسی کو بھی بتایا نہیں تھا  کوئی بھی گواہ نہیں ہے، نکاح سے پہلے ساس نے ایک مسجد امام سے پوچھا تھا تو اس نے کہا کہ نکاح ہوسکتا ہے،اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ الفاظ کے مطابق آپ کی بیٹی نے اپنے بھانجے کے ساتھ نکاح کیا، اور بھانجہ بہن کے بیٹے کو کہتے ہیں، لہذا  وہ لڑکا آپ کی بیٹی کا بھانجا اور آپ کی بیٹی اس کی خالہ ہوئی، اور شرعاً خالہ اور بھانجا  آپس میں محرم ہیں، ان کے درمیان حرمتِ  مؤبدہ کا رشتہ ہے، خالہ کا اپنے بھانجے سے نکاح بالکل جائز نہیں ہے؛  لہذا یہ نکاح سرے ہوا ہی نہیں ہے۔میاں بیوی پر فوری علیحدگی لازم ہے۔

اگر بھانجے سے مراد بہن کا نسبی  بیٹا نہ ہو، یا بھانجے سے مراد آپ کا بھانجا ہو، اور اب ساس رضاعت کے سبب اب اس رشتے کا دعوی کرررہی ہو تو پھر شوہر  کی تصدیق پر مسئلہ  موقوف ہے۔ اگر وہ ساس کی تصدیق کرے تو حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی اور اگر وہ تردید کرے تو نصابِ شہادت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے حرمت کارشتہ ثابت نہ ہوگا ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 28):
" فتحرم بنات الإخوة والأخوات وبنات أولاد الإخوة والأخوات، وإن نزلن وفروع أجداده وجداته ببطن واحد فلهذا تحرم العمات والخالات وتحل بنات العمات والأعمام والخالات والأخوال، فتح". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں