بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھات کے استعمال کا حکم


سوال

آج کل شادی وغیرہ میں ایک رسم عام ہورہی ہے، جس کو بھات کہا جاتا ہے، کیا بھات لینا، دینا جائز ہے، اور کیا بھات کے پیسے کو ولیمہ وغیرہ میں استعمال کرسکتے ہیں، اسی طرح اپنی دیگرضروریات میں استعمال کرنا کیا حیثیت رکھتاہے؟ 

جواب

’’بھات‘‘  ایک رسم ہے، جس میں  بہن اپنے بچوں کی شادی میں بھائیوں سے بھات لیتی ہے۔

 اگر بھائی اپنی بہن کے بچوں کو شادی کے موقع پرصلہ رحمی کے طور پرخوشی سے  ہدیہ اور تحفہ میں کپڑے یا پیسے وغیرہ دیں تو یہ جائز ہے،منع نہیں ہے۔

  لیکن اگر ’’بھات‘‘   کی رسم کی وجہ سے ان سے زبردستی لیا جائے  یا  وہ خوشی سے نہ دیں،  بلکہ خاندانی  ومعاشرتی دباؤ اور ملامت کے خوف دے دیں ، یا اس رسم کو لازم اور ضروری سمجھاجاتا ہو ، نہ دینے والوں پر ملامت کی جاتی ہو تو شرعاً یہ غلط اور ناجائز رسم ہے،  اس کا ترک کرنا ضروری ہے، شریعت میں اس کا تصور نہیں ہے۔

لہذا اگر طیبِ نفس کے ساتھ ہدایا وصول کیے ہوں تو ان کا استعمال بھی جائز ہو گا اور اگر رسماً طیبِ نفس کے بغیر وصول کیے ہوں تو اس کا استعمال جائز نہیں ہو گا۔

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: ألا لاتظلموا! ألا لایحل مال إمرء إلا بطیب نفس منه". (مشکاة المصابیح، باب الغصب والعاریة، الفصل الثاني ۲۵۵) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں