بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کے بچے کی کفالت


سوال

میرے بڑے بھائی نے شادی باہرملک کی،  کچھ مصلحت کے تحت اپنے بچے کو پاکستان لے آئے اور بچے کو چھوڑ کر چلے گئے،  اب بچے کی ذمےداری بوڑھے ماں باپ پر چھوڑ دی۔ بھائی نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ان کی بیوی جنوبی کوریا میں پڑھ رہی ہے اور یہ خود فرانس کے شہر میں پڑھ رہے ہیں۔ اب آپ حضرات سے یہ گزارش ہے کہ آپ لوگ ہی بتائیں کہ میں کیا کروں؟ میرے ماں باپ کیا کریں اور میرا بھائی کیا کرے؟

جواب

بچوں کی پرورش و تربیت حالتِ نکاح میں والدین کی ذمہ داری ہے؛  اس لیےبھائی کا اپنے بچے کی کفالت اور تربیت کا بوجھ دادا دادی پر ڈالنا ناجائز ہے۔ نیز بچے  کی تربیت کے لیے بھی مفید یہ ہے کہ وہ والدین کے پاس رہے۔ خود میاں بیوی کا بلا کسی ضرورتِ شدیدہ  لمبے عرصے ایک دوسرے سے علیحدہ رہنا  فتنوں کا باعث ہے۔

 مذکورہ صورت میں بھائی اور بھابھی کو یہ بات مناسب انداز مٰیں سمجھانا لازم ہے  کہ دنیا کی ظاہری ترقی اور چکا چوند کی وجہ سے گھر برباد نہ کریں۔ اوربہر حال جب تک کوئی صورت نہ بنے، تب تک آپ لوگ اللہ تعالی سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے بچہ کی کفالت و تربیت کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة". (الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد". (١/ ٥٦١)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 41):
"فالحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت والأصل فيها النساء؛ لأنهن أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر ولكل واحد منهما شرط فلا بد من بيان شرط الحضانتين ووقتهما أما التي للنساء فمن شرائطها أن تكون المرأة ذات رحم محرم من الصغار فلا حضانة لبنات العم وبنات الخال وبنات العمة وبنات الخالة؛ لأن مبنى الحضانة على الشفقة، والرحم المحرم هي المختصة بالشفقة ثم يتقدم فيها الأقرب فالأقرب فأحق النساء من ذوات الرحم المحرم بالحضانة الأم؛ لأنه لا أقرب منها ثم أم الأم ثم أم الأب؛ لأن الجدتين وإن استويتا في القرب لكن إحداهما من قبل الأم أولى.
وهذه الولاية مستفادة من قبل الأم فكل من يدلي بقرابة الأم كان أولى؛ لأنها تكون أشفق ثم الأخوات فأم الأب أولى من الأخت؛ لأن لها ولادا فكانت أدخل في الولاية وكذا هي أشفق، وأولى الأخوات الأخت لأب وأم ثم الأخت لأم ثم الأخت لأب؛ لأن الأخت لأب وأم تدلي بقرابتين فترجح على الأخت لأم بقرابة الأب وترجح الأخت لأم؛ لأنها تدلي بقرابة الأم فكانت أولى من الأخت لأب، واختلفت الرواية عن أبي حنيفة في الأخت لأب مع الخالة أيتهما أولى؟ روي عنه في كتاب النكاح أن الخالة أولى، وهو قول محمد وزفر".

و فيه أيضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (١/ ٥٦٢) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں