بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ کی دِین داری کے لیے ولادت کے وقت کیا کرے؟


سوال

میرے گھر  بچہ کی ولادت ہونے والی ہے ان شاء اللہ!  مجھے بتا دیں کہ ولادت کے وقت کیا کیا کام کرنے افضل ہیں، جس سے میرے بچے میں دِین داری اور نیکی پیدا ہو؟  پڑھنے کا عمل بھی بتائیے کہ ہمارے نبی  ﷺ کی ولادت پر انُ کی والدہ نے بھی کچھ پڑھا تھا؟

جواب

نبی کریمﷺ کی ولادت با سعادت کے موقع پر ان کی والدہ  محترمہ نے کیا پڑھا، یہ تو معلوم نہیں ہوسکا، تاہم ولادت کے موقع پر اور اس کے بعد جو اعمال مسنون ہیں، ان کا اہتمام کرنے سے ان شاء اللہ بچے کی زندگی میں اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

1- خود بھی گناہوں سے بچیے، اور اپنی اہلیہ سے بھی کہیے کہ ہر طرح کے گناہوں سے بچیں۔

2- تلاوتِ قرآنِ مجید اور سنتوں پر چلنے کا خود بھی اہتمام کیجیے اور اہلیہ کو بھی تلقین کیجیے۔ (روز مرہ سنتوں کی ضروری تفصیل کے لیے ’’اسوۂ رسولِ اکرم ﷺ‘‘ از ڈاکٹر عبد الحی عارفی رحمہ اللہ ملاحظہ کیجیے۔)

3-  درج ذیل دعا کا اہتمام کیجیے:

{رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ}

4- تحنیک کرانا سنت ہے، اور یہ کسی نیک شخص سے ہی کروانا مناسب ہے؛ تاکہ اس کے نیک اثرات اس بچے کی طرف منتقل ہو سکیں،گناہ گار سے کرانے میں یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ 

"تحنیک"  کا لغوی معنی ہے ’’کسی چیز کو چبا کر بچہ کے منہ میں ڈالنا‘‘۔  ’’تحنیک‘‘ کا طریقہ یہ ہے کہ   کسی نیک ،صالح ،متبع سنت بزرگ کے منہ میں چبائی ہوئی کھجوریا اس کے لعاب میں ملی ہوئی کوئی بھی میٹھی چیز مثلاً شہد یا   یا کم از کم کوئی ایسی چیز جو آگ پر پکی ہوئی نہ ہو بچے کے منہ میں ڈال کے اس کے تالو  پر مل دی جائے،   تاکہ یہ لعاب اس بچے کے پیٹ میں چلا جائے اور اس طرح اس نیک بزرگ کی نیکی کے اثرات اس بچے کے اندرمنتقل ہوجائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تو آپ ﷺ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کی تحنیک فرماتے تھے، چنانچہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی تحنیک کروانا حضور ﷺ کی سنت ہے، تحنیک کروانے میں حکمت یہ ہے کہ کھجور اس درخت کا پھل ہے جس درخت کو حضور ﷺ نے مؤمن کے ساتھ تشبیہ دی ہے تو گویا پیدائش کے بعد بچہ کو سب سے پہلے کھجور کھلانے میں اس بچہ کے صاحبِ ایمان ہونے کی نیک فالی لینا مقصود ہے،  خاص کر جب کہ تحنیک کروانے والا  نیک، صالح، متبع سنت بزرگوں اور علماء میں سے کوئی ہو، کیوں کہ جب بچے کے پیٹ میں ایسے لوگوں کا لعاب پہنچے گا تو ان بزرگوں کے ایمان اور نیکی کے اثرات اس بچہ پر پڑیں گے، خود رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی تحنیک کروائی تھی تو بڑے ہوکر وہ ایسے کمالات اور فضائل کے مالک بنے جن کو شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ 

مولاناعاشق الٰہی بلندشہریؒ ''تحفۃ المسلمین'' میں تحنیک کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

''تحنیک بھی سنت طریقہ ہے،یہ لفظ ''حنک ''سے لیاگیاہے،حنک عربی میں''تالو''کوکہتے ہیں،جب کوئی بچہ پیداہوتواسے کسی نیک آدمی کے پاس لے جائے،تاکہ چھوارہ وغیرہ کوئی چیزمنہ میں لے کربچہ کے منہ میں ڈال دے،اوراس کے تالوسے مل دے،جب حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے توآپ نے یہی عمل فرمایا۔اس میں اول توصالحین سے تعلق رکھنے اوران کے پاس آنے جانے کی تعلیم ہے،اوریہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ بچے کوآج ہی سے صالحین کی گودمیں دیں گےاوران کالعاب اس کے منہ میں ڈلوائیں گےتوبچے کاتعلق اللہ کے نیک بندوں سے رہے گا۔آج کل ماں باپ خودہی نیک آدمیوں سے دوربھاگتے ہیں اوربچہ کوبھی صالحین سے دوررکھتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارابچہ ملانہ بن جائے ،اب توسب سے پہلے بچے کے لیے یورپین ڈریس تیارکرنے کی کوشش رہتی ہے،نیک بنانے کاارادہ ہوتونیک بندوں کی تلاش ہو،نیک آدمیوں کے پاس لے جاکرتحنیک کروائیں اوربرکت کی دعالیں''۔

5۔بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت دی جاتی ہے۔

نومولود بچے کے کان میں اذان دینا سنت ہے، یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس بارے میں قولی وفعلی دونوں طرح کی احادیثِ مبارکہ موجودہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے:

’’حضرت عبیداللہ بن ابی رافع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کی ولادت کے وقت ان کے کان میں اذان دیتے ہوئے دیکھا جس طرح نماز میں اذان دی جاتی ہے‘‘۔

مظاہر حق شرح مشکاۃ المصابیح میں علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا سنت ہے ۔ مسند ابویعلی موصلی میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطریق مرفوع( یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ) نقل کیا ہے کہ  ’’ جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے، تو اس کو ’’ام الصبیان‘‘ (سوکڑہ کی بیماری)سے ضرر نہیں پہنچے گا‘‘۔

نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہتے وقت وہی الفاظ کہے جائیں گے جو نمازوں کے لیے کہی جانے والی اذان اور اقامت کے وقت ادا کیے جاتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ بچے کوہاتھوں پراٹھاکرقبلہ رخ کھڑے ہوکردائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے، اورحسبِ معمول "حي علی الصلوة" کہتے وقت دائیں طرف اور"حي علی الفلاح" کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیراجائے۔

6- ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے اور سر کے بالوں کا حلق کر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کیا جائے۔

پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ کرنا مسنون ہے، اگر کسی وجہ سے ساتویں روز نہ کر سکیں، تو چودہویں روز کر لیا جائے، اگر چودہویں روز بھی نہ کرسکیں تو اکیسویں روز کر لیا جائے، اگر اکیسویں روز بھی عقیہ نہ کر سکے تو اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے، تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن کرے۔

لڑکے کی طرف سے دو چھوٹے جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک چھوٹا جانور کرنا مستحب ہے، تاہم اگر لڑکے کے عقیقہ میں دو چھوٹے جانور کی وسعت نہ ہو تو ایک چھوٹا جانور کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا۔

اسی طرح سے بڑے جانور کو ذبح کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا، اور اگر کئی بچوں کا عقیقہ ایک ساتھ کرنے کا ارادہ ہو تو بڑے جانور میں سات تک حصہ کیے جا سکتے ہیں، اور ہر حصہ ایک چھوٹے جانور کی طرف سے کافی ہوگا، یعنی بچی کے لیے ایک حصہ اور بچی کی طرف سے دو حصے کرنے سے مسنون عقیقہ ادا ہوجائے گا۔

عقیقہ کے جانور کی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کی ہیں۔

عقیقہ کے جانور کا سارا کا سارا گوشت گھر والے کھا سکتے ہیں، اور اگر چاہیں تو سارا گوشت صدقہ بھی کر سکتے ہیں، یا رشتہ داروں میں تقسیم بھی کر سکتے ہیں، اسی طرح  گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ رشتہ داروں کے لیے اور ایک حصہ غرباء میں تقسیم کرنا زیادہ بہتر ہے۔

عقیقہ کے جانور کے ذبح کے بعد نومولود کے سر کے بال صاف کردیے جائیں، اور بالوں کے وزن کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کردی جائے، اور بالوں کو کڑا کرکٹ میں نہ پھینکا جائے، بلکہ کسی جگہ دفن کر دینا مستحب ہے۔

اعلاء السنن میں ہے:

’’أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقة، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

فيض الباري شرح صحيح البخاري (5/ 88):
"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه". 

7- اس کا عمدہ اور اچھے معنی والا نام رکھا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ اولاد کے اچھے نام رکھے جائیں، ایک روایت میں ہے اکہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھو۔ لہٰذا لڑکا ہو تو کسی نبی علیہ السلام یا صحابی رضی اللہ عنہ کے نام پر اور لڑکی ہو تو صحابیہ رضی اللہ عنہا کے نام پر یا اچھے معنیٰ والا عربی نام رکھیے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں