بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ دب کرمرجانے کی صورت میں دیت، کفارہ اور میراث کاحکم


سوال

 12 ماہ کے بچے کو  ماں دودھ پلاتے پلاتے سوجاۓ اور ماں کی چھاتی یا کروٹ لیتے ہوۓ بچے کی سانس رُک جاۓ، اس سے بچہ مرجاۓ تو  اس عورت پر کیا دیت ہے اور کفارہ؟ اور  یہ عورت میراث سے بھی محروم ہوگی یا نہیں؟

جواب

1-  بچہ سوتے میں ماں کے نیچے دب کر مرجائے یہ قتل جاری مجری خطا ہے، اس میں عاقلہ پر دیت اور والدہ پر  کفارہ لازم ہے،  دیت کی مقدارسو اونٹ یا دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار(موجودہ زمانے کے اعتبار سے 30 کلو 618 گرام چاندی)  یا اس کے برابر قیمت ہے،   دیت میں حاصل شدہ مال مقتول کے ورثہ میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہو گا۔  جو وارث اپنا حصہ معاف کر دے گا اس قدر معاف ہو جائے گا اوراگر سب نے معاف کر دیا تو سب معاف ہو جائے گا۔

2-  کفارے میں مسلسل ساٹھ روزے رکھنا   لازم ہو گا،  کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، ہاں! عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا، یعنی اگرعورت   60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے تو  60 روزے رکھنے کے دوران ماہ واری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ ماہ واری سے فراغت کے بعد 60 روزوں کو جاری رکھے گی۔

3- یہ عورت اپنے بچے کی  میراث سے محروم ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: الموجب للقود أو الكفارة) الأول هو العمد وهو أن يقصد ضربه بمحدد أو ما يجري مجراه في تفريق الأجزاء، والثاني ثلاثة أقسام: شبه عمد، وهو أن يعتمد قتله بما لايقتل غالبًا، كالسوط، وخطأ كأن رمى صيدًا فأصاب إنسانًا، وما جرى مجراه كانقلاب نائم علی شخص أو سقوطه عليه من سطح، فخرج القتل بسبب؛ فإنه لايوجبهما كما لو أخرج روشنًا أو حفر بئرًا أو وضع حجرًا في الطريق؛ فقتل مورثه أو أقاد دابةً أو ساقها فوطئته أو قتله قصاصًا أو رجمًا أو دفعًا عن نفسه أو وجد مورثه قتيلًا في داره أو قتل العادل الباغي وكذا عكسه إن قال: قتلته وأنا على حق وأنا الآن على الحق، وخرج القتل مباشرةً من الصبي والمجنون؛ لعدم وجوب القصاص والكفارة. وتمامه في سكب الأنهر وغيره".(767/6ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں