بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے کھیلنے کے لیے گڑیا


سوال

بچوں کے کھیلنے کے لیے گڑیا  کا کیا حکم ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں تصویر سازی اور مجسمہ سازی منع ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا جان دار کی تصویریں ہوں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب مصورین کو ہوگا. 

البتہ بعض احادیث میں  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بچپن میں گڑیا سے کھیلنے کا ذکر ہے، لیکن اس حدیث کا صحیح مطلب سمجھنا ضروری ہے۔

”عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا کَانَتْ تَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم ، قَالَتْ: وَکَانَتْ تَأْتِینِي صَوَاحِبِي فَکُنَّ یَنْقَمِعْنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم،  قَالَتْ: فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم  یُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ“. (أخرجه مسلم: ۶۴۴۰) وفي حدیث جریر: ”کُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ فِيْ بَیْتِهِ وَهُنَّ اللُّعَبُ“.

محدثینِ کرام نے اس میں احتمال بیان کیے ہیں:  یا تو  ان گڑیوں کی ناک کان وغیرہ نہ تھیں، یا وہ گڑیا نہ تھیں، بلکہ  لڑکی نما کھلونے تھے، باقاعدہ مجسمے کی شکل نہیں تھی۔  نیز یہ بھی امکان ہے کہ یہ واقعہ تصویرکی حرمت کے نزول سے پہلے کا ہے؛ لہذا ایسی گڑیا جس کی تصویر واضح ہو اس سے کھیلنا جائز نہیں ہے۔

"عن ابن عباس، عن أبي طلحة، رضي الله عنهم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لاتدخل الملائكة بيتاً فيه كلب ولا تصاوير»". (صحيح البخاري 7 / 167)

" عن عمران بن حطان، أن عائشة، رضي الله عنها حدثته: أن النبي صلى الله عليه وسلم «لم يكن يترك في بيته شيئاً فيه تصاليب إلا نقضه»". (صحيح البخاري 7 / 167)

"عن نافع، أن عبد الله بن عمر، رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: " أحيوا ما خلقتم". أیضاً.

عن مسلم، قال: كنا مع مسروق، في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون» أیضاً". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200969

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں