بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی عمر کم لکھوانا


سوال

بچوں کی عمر کم لکھوانا شرعاً جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی شخص کا جانتے ہوئے اپنی  یا اپنے بچہ کی اصلی عمر کی بجائے کم یازیادہ عمرلکھنا؛ تاکہ سرکاری وغیرسرکاری محکموں وغیرہ میں ملازمت کے حصول میں آسانی ہو، یا اسکول میں بچہ کا با آسانی داخلہ کی غرض سے عمر کم لکھوانا ، یہ جھوٹ اور دھوکا دہی ہے جوکہ ناجائزاورحرام ہے؛ اس لیے جان بوجھ  کرتاریخِ پیدائش میں غلط اندراج کروانے سے اجتناب ضروری ہے، وگرنہ جب بھی، جہاں کہیں اورکسی بھی موقع پرتاریخِ پیدائش لکھنے کی نوبت آئے گی جھوٹ اوردھوکا  دہی لازم آئے گی۔ اورحدیث شریف میں جھوٹ، غدراوردھوکا  دہی کی سخت ممانعت آئی ہے ، لہذا اصلی عمر لکھنا ضروری ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان".

(مشکاة المصابیح کتاب الفرئض ۱/۲٦٦ ط:حقانيه بشاور)

اوربخاري شريف  میں ہے :

"عن عبد الله بن عمر، رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لكل غادر لواء يوم القيامة يعرف به".

 (صحیح البخاري، كتاب الحيل،  ۱٠۳٠/۲ ط: قديمي كراتشي)         

ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں (ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر دھوکا دینے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچاناجائے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں