بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی تربیت بیوی کے ذمہ ہے یا شوہر کے؟


سوال

اگر کوئی عورت اکثر اوقات اپنے بچوں کو لعن طعن کرے، اس حد تک کہے کہ یہ میرے لیے مصیبت ہیں۔اور خاوند کے سمجھانے پر اس سے بھی منہ چڑھا کے بات کرے اور بد تمیزی پر اتر آئے ۔اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ نہ دے۔بلکہ بچوں کی تربیت کے بجائے سوشل میڈیا، فیس بک وغیرہ پر من گھڑت اقوال کو شیئر کرنے اور لائک کرنے پر وقت ضائع کرے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟جب کہ خاوند گھریلو ضروریات اور اخراجات پورے کر رہا ہو۔ اور جب بیوی سے کہا جائے بچوں پر توجہ دو، ان کو بھی ٹائم دو تو دوٹوک جواب دے کہ بچے صرف میرے نہیں، نہ میں ساتھ لے کر آئی تھی، میری سنتے ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔اگر باپ گھر بیٹھ جائے تو مادی مسائل اور اگر گھر چلانے کے لیے محنت مزدوری کرے تو بچوں کی تربیت کا مسئلہ!!

از راہِ مہربانی یہ بتائیے کہ اسلام کی رو سے بچوں کی تربیت کی زیادہ ذمہ داری شوہر پر لازم ہے یا بیوی پر بھی عائد ہوتی ہے؟ خاوند بسلسلہ روزگار بیرونِ ملک مقیم بھی ہو سکتاہے!

جواب

اسلام نے پاکیزہ ، پرسکون اورپر لطف زندگی کے لیے جو اصول وضوابط تعلیم فر ما ئے ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ عورت شوہر کے گھر کی، اس کے مال واسباب کی اور اس کے بچوں کی نگرانی و حفاظت کرتی رہے ، یہ اس کے فرائض و ذمے دار یوں میں دا خل کیا گیا ہے ۔چناں چہ ایک حدیث میں ارشاد ہے :عورت اپنے شوہر کے گھر اوربچے کی راعی(یعنی نگہبان اور حفاظت کرنے والی) ہے ۔(  بخاری:۲/۱۰۵۷ )

"راعی" کا معنی وہ امانت دار نگران، جو اس چیز کی اصلاح وتدبیر میں لگا رہتا ہے جو اس کی ذمے داری میں دی گئی ہو۔ اور عورت کی نگرانی یہ ہے کہ گھریلوں امور اور اولاد کی تدبیر کرے اور اس معاملے میں شوہر کا تعاون کرے۔ عورت پر شادی کے بعد جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، ان میں اپنے بچوں کی تربیت اور تعلیم بہت ہی اہم اور نازک ذمے داری ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری اگر چہ باپ پر بھی عائد ہوتی ہے؛لیکن اس سلسلہ میں ماں جو کردار ادا کرسکتی ہے، اس کے مقابلے میں باپ کی حیثیت ثانوی درجہ کی رہ جاتی ہے ۔ اس لیے کہ ماں کی گود ، بچے کا سب سے پہلا مدرسہ و تعلیم گاہ ہوتی ہے،پھر بچے کو ماں سے دن رات کے چوبیس گھنٹے میں اکثر اوقات سابقہ پڑتا ہے ،جب کہ باپ سے بہت کم سابقہ پڑتا ہے ؛اس لیے عورت پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی یہ نازک ذمے داری باپ سے زیادہ عائد ہوتی ہے ۔ 
اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ بچے کو شروع ہی سے ایمان و یقین میں مضبوط کرنے کی فکر لازم ہے ۔ دوسرے اسلامی آداب و اسلامی تہذیب سے اس کو آراستہ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ،پھر جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوجائے، تو تعلیم کا بندوبست کرنا چاہیے، تعلیم میں مقدم دینی تعلیم کو رکھنا چاہیے، پھر عصری و دنیوی تعلیم سے بھی بچہ کو آراستہ کرنے کی تدبیر کرنا چاہیے۔

آج عام طور پر  والدین خصوصاً مائیں اپنے بچوں کی تربیت میں انتہائی کوتاہی کرتی ہیں ، ان کو نہ اسلامی آداب سکھاتی ہیں، نہ اسلامی تہذیب و اخلاق سے ان کو آراستہ کرتی ہیں ؛بل کہ صرف انگریزی وعصری اسکولوں کے حوالے کر کے یہ سمجھ جاتاہے کہ ہم نے حق ادا کردیا ؛ مگر ان کو یہ خبر نہیں کہ ان اسکولوں میں ایمان و یقین تو ایک طرف رہا ، ان بچوں کو اخلاق و آداب کی تعلیم بھی نہیں دی جاتی ؛بل کہ اس تعلیمی نظام کے زیرِ اثر رہ کر بچے مزید بے ادب، گستاخ اور اسلامی تہذیب و آداب سے بے بہرہ ہوجاتے ہیں؛ اس لیے بچوں کی اسلامی تربیت کا گھر میں اہتمام کرناچاہیے ؛مگر اس کے لیے پہلے ماؤں کو علم و اخلاق، ایمان واسلام سے اپنے آپ کو مزین و آراستہ کرنا چاہیے، ظاہر ہے کہ جب ماں خود اسلامی اخلاق وآداب اور تہذیب سے ناآشنا ہوگی تو بچوں کی وہ کیا تربیت کرسکتی ہے؟
بچوں کی تربیت کے لیے حضراتِ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے قصے، حضراتِ صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات اور بزرگانِ دین کے حالات کی گھروں میں تعلیم اور ان کے تذکرے نہایت مفید ہے، چوں کہ بچے کہانی سننے کے نہایت شوقین ہوتے ہیں ؛اس لیے وہ ان قصوں کو بہت ذوق و رغبت سے سنتے اور یاد بھی کرتے ہیں۔ لہذا اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے ۔ غرض یہ کہ ما ں کے ذمے ہے کہ بچوں کی تربیت پر پوری توجہ دے، اور ہر اچھی عادت ،تمام اچھے اخلاق ان میں پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری شوہر اور بیوی دونوں کے ذمہ ہے، البتہ شوہر کے ذمہ چوں کہ اپنی بیوی اور بچوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری بھی ہے جس کی وجہ سے اسے دن کا اکثر وقت گھر سے باہر گزارنا پڑتا ہے، جب کہ بیوی سارا دن گھر میں ہی ہوتی ہے؛ اس لیے شوہر کے مقابلے میں بیوی کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر توجہ دے، بلکہ شریعتِ مقدسہ نے بیوی کو گھر میں رہنے اور شوہر کو  اہل وعیال کا نفقہ کماکر لانے کا جو مکلف بنایا ہے اس کی من جملہ حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنے کے لیے پوری طرح فارغ رہے، کیوں کہ اگر بچوں کو ماں کی گود سے اچھی تربیت ملے تو اس کا اثر ساری زندگی ان کے ساتھ رہتا ہے، اس کے برخلاف اگر بچپن میں اچھی تربیت نہ ملے تو پھر ان کا راہِ راست پر آنا بہت مشکل ہوتا ہے، اسی وجہ سے اولاد کے نیک اعمال کا اجر والدین کو ملتا ہے، اور صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے جو بداعمالیاں وہ کرتے ہیں اس کا وبال والدین پر بھی پڑتا ہے۔ چناں چہ آپ کی بیوی کا مذکورہ طرزِ عمل درست نہیں، ان کو چاہیے کہ فیس بک اور موبائل پر وقت گزارنے کے بجائے بچوں کو وقت دیں اور ان کی تربیت پر توجہ دیں۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ فیس بک کا استعمال اور موبائل پر جاندار اشیاء کی تصاویر بنانا، بھیجنا اور دیکھنا ناجائز ہے ؛ اس لیے موبائل کے غیر شرعی استعمال سے مکمل اجتناب چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شوہر بچوں کی تربیت سے بالکل اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھے، بلکہ اولاد کی تربیت والد کی بھی ذمہ داری ہے، لہٰذا آپ کو بھی حتی الامکان وقت نکال کر بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینی چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں