بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول ٹیچر کا اپنی جگہ کسی اور کو کم معاوضے پر تدریس حوالہ کرنا اور بقیہ تنخواہ خود لینا


سوال

زید ایک سرکاری سکول میں ٹیچر ہے، اس کی ماہانہ تنخواہ ساٹھ ہزار روپیہ ہے، مگر وہ خود بچوں کو پڑھانے کی بجائے پانچ ہزار روپے کے عوض کسی آدمی کو رکھا ہوا ہے، وہی بچوں کو پڑھاتا ہے، اب زید کا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟

 

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کو اجرت کے عوض کوئی کام دیا جائے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ کام اس نوعیت کا ہو کہ کوئی بھی شخص اس کام کو کر سکتا ہو اور اجرت پر رکھنے والے نے اجازت بھی دی ہو تو وہ کام کسی دوسرے سے کروانا جائز ہو گا اور اگر وہ کام اس نوعیت کا ہو کہ ہر آدمی اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور اجرت پر رکھنے والے نے اس کی اجازت بھی نہ دی ہو تو ایسی صورت میں کسی دوسرے شخص سے وہ کام کروانا جائز نہ ہو گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب اسکول انتظامیہ نے ساٹھ ہزار روپے کے عوض زید کو  بطورِ ٹیچر رکھا ہوا ہے تو انتظامیہ زید ہی کی صلاحیت پر راضی ہے، کسی دوسرے شخص کی صلاحیت پر راضی نہ ہو گی،  اس لیے زید کا اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کو پڑھانے کے لیے بھیجنا اور تنخواہ خود وصول کرنا شرعاً درست نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 18):
"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200642

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں