بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوڑھی عورت کے لیے پردہ کا حکم


سوال

اگر کسی عورت نے شروع سے پردہ نہ کیا ہو اور اب وہ بوڑھی ہو چکی ہو تو کیا اب بھی اس پر پردہ کرنا لازم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  کسی عورت کی عمر نکاح کی میعاد سے تجاوز کرگئی ہو،  وہ اگر غیرمحرم کے سامنے چہرہ کھول دے بشرطیکہ زینت کا اظہار نہ ہو تو  کوئی حرج نہیں، لیکن پردہ اس کے لیے بھی بہتر ہے۔ باقی پردے کے اَحکام نرم ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر نسوانی اَحکامات جاری نہیں ہوتے، جو کام مردوں کے ہیں یا جن کاموں میں غیر مردوں کے ساتھ بے محابا اختلاط یا تنہائی کی نوبت آتی ہے وہ اب بھی جائز نہیں ہوں گے۔ البتہ جو زندگی بغیر پردے کے گزاری ہے اس پر توبہ واستغفار کرے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{والقواعد من النساء الّٰتي لايرجون نكاحاً فليس عليهن جناح أن يضعن ثيابهن غير متبرجٰت بزينة وأن يستعففن خير لهن والله سميع عليم} [النور: 66]

تفسیر ابن کثیر میں ہے: 

"وقوله: {والقواعد من النساء} قال سعيد بن جبير، ومقاتل بن حيان، والضحاك، وقتاده: هن اللواتي انقطع عنهن الحيض ويئسن من الولد {اللاتي لايرجون نكاحاً} أي لم يبق لهن تشوف إلى التزوج {فليس عليهن جناح أن يضعن ثيابهن غير متبرجات بزينة} أي ليس عليها من الحرج في التستر كما على غيرها من النساء ... وقوله: {وأن يستعففن خير لهن} أي وترك وضعهن لثيابهن وإن كان جائزاً خير وأفضل لهن والله سميع عليم". (ج:6، ص: 77، 76، 75، النور، آية: 69، ط: دارالكتب العلمية)

الدر المختار میں ہے:

"أما العجوز التي لاتشتهي فلا بأس بمصافحتها ومس يدها إذا أمن، ومتى جاز المس جاز سفره بها، ويخلو إذا أمن عليه وعليها، وإلا لا. وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة .. . أو كانت عجوزا شوهاء". (ج:6، ص: 368، ط: دارالفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم إن محمداً رحمه الله تعالى أباح المس للرجل إذا كانت المرأة عجوزاً، ولم يشترط كون الرجل بحال لايجامع مثله، وفيما إذا كان الماس هي المرأة قال: إذا كانا كبيرين لايجامع مثله ولايجامع مثلها فلا بأس بالمصافحة". (ج:5، ص: 329، ط: دارالفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومفهومه: جوازه على العجوز، بل صرحوا بجواز مصافحتها عند أمن الشهوة". (ج:1، ص: 617، ط: دارالفكر بيروت)

وفيه أيضًا:

"في الشفاء عن الكرميني: العجوز الشوهاء والشيخ الذي لايجامع مثله بمنزلة المحارم". (ج:6، ص: 368، ط: دارالفكر بيروت)

وفيه أيضًا:

"قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولاً، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزاً رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع وإن كانت شابةً رد عليها في نفسه". (ج:6، ص: 369، ط: دارالفكر بيروت) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012200917

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں