بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بونس پر زکاۃ کا حکم


سوال

 مجھے ہر سال مارچ کے مہینے میں اپنی کارکردگی کی بنا پر آفس سے بونس ملتا ہے۔ اور وہ زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جاتا ہے۔ پھر کچھ مہینہ بعد وہ بونس مجھ سے خرچ ہوجاتا ہے،  یعنی پورا سال نہیں گزرتا اس نصاب پر۔ اور اسی طرح اگلے مارچ میں مجھے دوبارہ بونس ملتا ہے اور میں دوبارہ نصاب کو پہنچ جاتا ہوں۔ ایسی صورت میں کیا مجھ پر زکاۃ  واجب ہوتی ہے؟ 

جواب

اگر آپ کے پاس مذکورہ بونس کے علاوہ نصاب کے بقدر مال موجود نہیں ہے، بلکہ اسی بونس کی وجہ سے آپ کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال آتا ہے اور سال بھر رہنے سے پہلے خرچ ہو جاتا ہے  اور درمیان سال میں آپ کے پاس ضرورت سے زائد مال بالکل جمع نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں آپ صاحبِ  نصاب شمار نہیں ہوں گے اور آپ پر زکاۃ  بھی لازم نہیں ہو گی۔

اسی طرح اگر  بالفرض آپ کے پاس اس بونس کے علاوہ نصاب کے بقدر مال موجود  ہو ، لیکن یہ بونس باقی نہ رہے  تو سال کے جس مہینے میں آپ زکات ادا کرتے ہوں ، اس مہینے کو دیکھا جائےگا کہ اس ماہ آپ کی ملکیت میں بونس ہے یا نہیں، اگر اس ماہ آپ کی ملکیت میں بونس ہو تو دیگر اموال کے ساتھ بونس کی  زکات بھی نکالی جائے گی اور اگر اس ماہ بونس نہ ہو  تو  زکات بھی لازم نہیں ہو گی۔

لیکن اگر ایسا ہوتا ہے کہ بونس ملنے سے آپ صاحبِ نصاب بن جاتے ہیں، پھر دو چار روز یا کچھ دن بعد اسے خرچ کردیتے ہیں، اور سال کے درمیان میں بھی کچھ نہ کچھ رقم محفوظ رہتی ہے، ایسا وقت نہیں آتا کہ بالکل رقم موجود نہ ہو، اور  پھر اگلے سال کا بونس  اسی قمری تاریخ کو مل جاتا ہے جس میں پچھلے  سال آپ صاحبِ نصاب بنے تھے، یا بونس تو پہلے مل جاتا ہے لیکن وہ خرچ نہیں ہوتا کہ وہی قمری تاریخ آجاتی ہے جس میں پچھلے سال بونس ملنے سے آپ صاحبِ نصاب ہوئے تھے تو آپ کو  اس  تاریخ میں ضرورت سے زائد موجود رقم کی زکات  ادا کرنی ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں