بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بولی لگانے کا حکم


سوال

میں نے آج روزنامہ امت اخبار کے ایک کالم دیکھا، جس میں ایک حدیثِ مبارکہ  کا ذکر ہے کہ حدیث شریف میں بولی لگانے کو منع کیا گیا ہے،کیوں کہ اس سے بعض اوقات قیمتیں زیادہ ہوجاتی ہیں،جس سے خریداروں کو نقصان ہوتا ہے، کبھی کم ہوجاتی ہے،جہاں مالکان کو خسارہ ہوتا ہے؛  لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ ( بدھ 29 جنوری )2020

برائے مہربانی حدیث کی تفصیل سے آگاہ کریں بمعہ حوالہ؛ کیوں کہ ہمارا  کاروبار مچھلی کی آڑھت کا ہے تو ہم بھی بعض اوقات بولی لگواتے ہیں!

جواب

بولی لگانا درست ہے، بشرطیکہ بولی لگانے والااس چیز کو خریدنا چاہتا ہو، اگر بولی لگانے والے  کا مقصد وہ چیز خریدنا نہیں،  بلکہ زیادہ قیمت لگاکر دوسرے خریدار کو زیادہ قیمت پر آمادہ کرنا چاہتا ہےتو  ایسا کرنا مکروہ ہے، نبی کریم ﷺ نے اس  طرح کرنے سے منع فرمایا ہے، حدیث شریف میں جس بولی لگانے سے منع کیا ہے اس سے یہی مراد ہے کہ ایسی بولی لگانا جس سے قیمت میں اضافہ تو ہوجائے، لیکن آپ کے خریدنے کا ارادہ نہ ہو ۔ جہاں خریداری مقصود ہو ایسی بولی لگوانا خود رسول اللہ ﷺ سے بھی ثابت ہے، ایک طویل حدیث میں ہے کہ ایک ضرورت مند شخص نے رسول اللہ ﷺ سے ضرورت کے لیے کچھ مانگا، آپ ﷺ نے اس سے پوچھا گھر میں کچھ موجود ہے؟ اس نے بتایا کہ ایک پیالہ اور ایک کپڑا، رسول اللہ ﷺ نے وہ دونوں چیزیں طلب فرمائیں، اور اس شخص کے لانے کے بعد صحابہ کرام سے فرمایا: یہ کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا: میں ایک درہم میں یہ دونوں چیزیں لوں گا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایک درہم پر کون قیمت بڑھائے گا؟ تو ایک دوسرے شخص نے دو درہم میں وہ دونوں چیزیں خرید لیں، آپ ﷺ نے وہ دونوں اشیاء اسے بیچ دیں۔۔۔ الخ

سائل نے جو الفاظ ذکر کیےہیں وہ مکمل الفاظ حدیث کے نہیں ہیں، بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے ’’نجش‘‘ سے منع فرمایا ہے، پھر ائمہ مجتہدین اور فقہاء نے اس کا مطلب ذکر کیا ہے کہ نجش سے مراد یہ ہے کہ دوسرے کو صرف ابھارنے کے لیے بولی لگانا جب کہ خود خریداری مقصود نہ ہو، اس میں چوں کہ دوسرے شخص کا نقصان ہے، اس لیے اس سے منع کیا گیا۔

حدیث میں "نجش" سے منع فرمانا کئی روایات میں وارد ہے اور اس کی وضاحت امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی "موطا " میں کی ہے ، روایت ملاحظہ فرمائیں:

"قال مالك: عن نافع عن عبد الله بن عمر: أنّ رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن "النجش". قال مالك: والنجش أن تعطيه بسلعته أكثر من ثمنها وليس في نفسك اشتراؤها فيقتدي بك غيرك". (موطا الإمام مالك،  باب ما ینهى عنه من المساومة والمبایعة :۲/۶۸۴)

اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی وضاحت فرمائی ہے:

"حدثنا قتيبة و أحمد بن منيع قالا: حدثنا سفيان عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: وقال قتيبة: يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لاتناجشوا". قال: وفي الباب عن ابن عمر و أنس.  قال أبو عيسى: حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند أهل العلم كرهوا النجش. قال أبو عيسى: و"النجش": أن يأتي الرجل الذي يفصل السلعة إلى صاحب السلعة فيستام بأكثر مما تسوى، وذلك عندما يحضره المشتري يريد أن يغترّ المشتري به وليس من رأيه الشراء إنّما يريد أن يخدع المشتري بما يستام، وهذا ضرب من الخديعة، قال الشافعي: وإن نجش رجل فالناجش آثم فيما يصنع و البيع جائز؛ لأنّ البائع غير الناجش". (سنن الترمذي، کراهیة النجش في البیوع : ۳/۵۹۷،دار إحیاء التراث العربي)

اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے ’’نجش‘‘ سے منع فرمایا ہے، اور حدیث میں " نجش " سے جو بولی مراد ہے، اس کی وضاحت سابقہ سطور میں گزر چکی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں