بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوسکی کپڑے کی خرید و فروخت


سوال

میں  ایک مشہور ٹیکسٹائل میں مردوں کے آؤٹ سورسنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا ہوں. میرا سوال مردوں کے کپڑے بوسکی سے متعلق ہے، جیسے کہ ہمیں پتہ ہے کہ اسلام میں مردوں کے لیے سلک پہننا منع ہے،  تو کیا مردوں کے  لیے بوسکی پہننے کی اجازت ہے؟

1- پیور بوسکی میں تانا اور بانا دونوں میں ١٠٠% سلک ہوتا ہے۔   2- پارشل(جزوی)  سلک بوسکی میں تانا سلک کا ہوتا ہے اور بانا وسکوس یا پالئیسٹر میں ہوتا ہے۔

 اب ہمیں فتوی چاہیے کہ کون سی بوسکی حرام ہے اور کون سی پہننی جائز ہے؟  تاکہ ہم تھوک خریداری میں احتیاط کر سکیں۔

جواب

واضح رہے کہ ہر ایسا کپڑا جس کا تانا بانا دونوں ریشم کے ہوں یا بانا ریشم کا ہو یا تانا بانا دونوں میں ریشم شامل ہو اور مجموعی طور پر ریشم غالب ہو،  وہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، بصورتِ  دیگر تمام کپڑے مردوں کے لیے استعمال کرنا شرعاً جائز ہے۔

اس وقت مارکیٹ میں ’’بوسکی‘‘ کے نام سے منسوب کئی قسم کے کپڑے فروخت کیے جارہے ہیں، جن میں سے بعض کی تیاری میں خالص ریشم ہی استعمال ہو رہا ہے اور بعض کا بانا خالص ریشم کا ہے اور بعض مخلوط دھاگے سے تیار کیا جارہا ہے، اور عموماً’’بوسکی‘‘ کپڑا مصنوعی (آرٹیفشل) ریشم سے تیار کیا جارہا ہے، اگرچہ اسے خالص ریشم سمجھا جاتاہے؛ لہٰذا ’’بوسکی‘‘ کپڑے کو مطلقاً ریشم نہیں کہا جاسکتا، الا یہ کہ کسی کپڑے کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہوجائے۔

بہرحال مرد کے پہننے کے لیے  بوسکی کپڑے کی خریداری سے پہلے  خوب  اچھی طرح معلومات کرنے کے بعد ’’بوسکی‘‘  کپڑا خریدا جائے۔ اگر وہ خالص ریشم یا اس کا بانا خالص ریشم کا ہو یا تانا بانا میں اکثر ریشم کا ہو اور ریشم غالب بھی ہو تو ایسا کپڑا مرد کے لیے پہننا جائز نہیں۔جو کپڑا مردوں ہی  کے لیے بنا ہو اور مرد ہی استعمال کرتے ہوں اور وہ ریشم کا ہو تو ایسے کپڑوں کا بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

’’حدثنا ابن نفيل حدثنا زهير حدثنا خصيف عن عكرمة عن ابن عباس قال: إنما نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الثوب المصمت من الحرير، فأما العلم من الحرير وسدى الثوب فلا بأس به‘‘.

( سنن أبي داود » كتاب اللباس » باب الرخصة في العلم وخيط الحرير، رقم الحديث: ٤٠٥٥)

عون المعبود میں ہے:

’’و قال الطيبي : هو الثوب الذي يكون سداه و لحمته من الحرير لا شيء غيره، و مفاد العبارتين واحد (و سدى الثوب) : بفتح السين والدال بوزن الحصى ، ويقال ستى بمثناة من فوق بدل الدال لغتان بمعنى واحد وهو [ ص:82 ] خلاف اللحمة وهي التي تنسج من العرض وذاك من الطول ، والحاصل أنه إذا كان السدى من الحرير واللحمة من غيره كالقطن والصوف ( فلا بأس )؛ لأن تمام الثوب لا يكون إلا بلحمته .  والحديث يدل على جواز لبس ما خالطه الحرير إذا كان غير الحرير الأغلب وهو مذهب الجمهور‘‘.

التمهيد في الموطأ من المعاني و الأسانيد  میں ہے:

’’لايختلفون في الثوب المصمت الحرير الصافي الذي لا يخالطه غيره أنه لايحل للرجال لباسه‘‘. (١٤/ ٢٤٠)

الاختيار لتعليل المختار  میں ہے:

’’لا بأس بلبس ماسداه إبريسم و لحمته قطن أو خز‘‘. (ص: ٤٩)

تنویر الأبصار مع الدر المختار میں ہے:

’’و يحل ( لبس ما سداه ابريسم و لحمته غيره) ككتان و قطن و خز؛ لأن الثوب إنما يصير ثوباً بالنسج، و النسج باللحمة، فكانت هي المعتبرة دون السدي‘‘.

و في الشامية: ’’( قوله: و لحمته غيره) سواء كان مغلوباً أو غالباً أو مساوياً للحرير، و قيل: لا بأس إلا إذا غلبت اللحمة علي الحرير، و الصحيح الأول‘‘.

(الدر المختار، كتاب الحظر و الإياحة، ٦/ ٣٥٦، ط: سعيد) 

کفایت المفتی میں ہے:

"  رنگین لباس جو عورتوں یا ہیجڑوں  یا فساق فجار کے لباس کے مشابہ ہو،  مرد کے لیے اُسے پہننا  ناجائز ہے،  اس کے علاوہ سیاہ،  بادامی،  سبز وغیرہ رنگ کے کپڑے مرد کے  لیے مباح ہیں،  خالص یا غالب ریشم کے کپڑے مرد کے  لیے حرام ہیں،  جس کپڑے کا  تانا ریشم اور بانا سوت ہو وہ مرد کے  لیے بھی حلال ہے  ۔"

(کفایت المفتی جلد 9)

فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

"ریشمی کپڑے سے نماز پڑھنا

سوال:  ریشمی پارچہ سے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟

جواب:     ریشمی کپڑے سے نماز ہو جاتی ہے،  مگر سخت گنہگار ہوتا ہے اور عورت کو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ فقط۔" (فتاوی رشیدیہ)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"مصنوعی ریشم پہننا

س… بخاری و مسلم میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث نظر سے گزری (جو ایک ماہنامے میں چھپی تھی)، اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند چیزوں سے منع فرمایا ہے، جن میں ایک یہ بھی ہے کہ: “سوت اور ریشم کی ملاوٹ سے تیار کردہ کپڑا پہننا۔” اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کل بازاروں میں ریشم (سلک) کے کئی اقسام کے کپڑے دست یاب  ہیں، دُکان داروں کا کہنا ہے کہ یہ خالص ریشم نہیں ہے، بلکہ ریشم اور ملکوت  سے ملا جلا کپڑا ہے۔ تو کیا اس صورت میں یہ حرام ہوا؟ پھر راوٴسلک کے نام سے بھی ایک کپڑا پہنا جاتا ہے، یہ کس زُمرے میں آئے گا؟

ج… مصنوعی ریشم  کے جو کپڑے تیار ہوتے ہیں، یہ ریشم نہیں، اس  لیے اس کا پہننا اور استعمال کرنا جائز ہے، البتہ اگر اصل ریشم کا کپڑا ہو تو اس کو پہننا دُرست نہیں۔"

(آپ کے مسائل اور  انکا حل 7)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں