بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلاغسل امامت کے ساتھ پڑھی گئی نمازوں کا حکم


سوال

مجھے غسل کی فرضیت کا علم نہ تھا، میرا خیال تھا کہ صرف بدن کا وہ ناپاک حصہ پاک کرلینے سے آدمی پاک ہوجاتا ہے، اور نماز پڑھ سکتا ہے، اور میں اگلے دن غسل کرلیتا تھا، میں نے اس حالت میں آفس میں بہت سی نمازوں کی امامت بھی کی ہے، اب پوچھنا یہ چاہتا ہوں:

1- ان نمازوں کا کیا حکم ہوگا؟ 2- اگر نمازیں نہیں ہوئیں تو مجھے کتنی نمازیں لوٹانی ہوں گی؟ اس لیے کہ مجھے تو یاد بھی نہیں ہیں. 3- اس صورت میں نمازیوں کو کس طرح بتاؤں؟ بہت سے ساتھی آفس چھوڑ کر جاچکے ہیں، اور جو موجود ہیں اگر ان کو بتادیا تو آفس میں بہت  بدنامی ہوگی، اور مجھے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا.

جواب

مذکورہ صورت میں اول تو سچے دل سے ندامت کے ساتھ استغفار کریں کہ اتنے زمانے تک دین کے ایک بنیادی حکم کا علم ہی نہ ہوا، اور اس دوران اتنی نمازیں بلاغسل و وضو ادا کیں، بلکہ امامت بھی کی۔

1،2- تلافی کی صورت یہ ہے کہ بلوغ کے بعد سے اس وقت تک محتاط اندازہ لگائیں کہ کتنی نمازیں اس حالت میں ادا ہوئی ہیں، اور ان نمازوں کی قضا شروع کرلیں، ہر فرض نماز کے ساتھ ایک قضا نماز بھی پڑھ لیں تو ان شاء اللہ سہولت سے قضا نمازیں پوری ہوجائیں گی.

3- دنیا کی چند روزہ زندگی کی نیک نامی یا بدنامی بھی عارضی ہے، حقیقت یہ ہے کہ دینی امور میں یوں اپنی غلطی کا اعتراف کرلینے سے لوگوں کے دلوں میں قدر گھٹتی نہیں بڑھتی ہی ہے، اس لیے آپ آخرت کی پکڑ سے بچاؤ کو مقدم رکھیں اور جن لوگوں نے اس دوران آپ کی امامت میں نمازیں ادا کی ہیں، ان میں سے جتنے لوگوں تک اطلاع پہنچاسکتے ہیں انہیں اطلاع دیں، البتہ ان نمازوں کے فاسد ہونے کی وجہ بتانا ضروری نہیں، اپنی عزتِ نفس کا لحاظ رکھتے ہوئے سببِ فساد کو مبہم رکھ سکتے ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143711200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں