بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا عذر ترکِ جماعت کا حکم


سوال

اگر کوئی انسان بلا کسی عذر کے نماز باجماعت نہیں پڑھتا تو اُس کے بارے میں کیا بیان آتا ہے؟

جواب

حنفیہ کے ہاں نماز باجماعت ادا کرنا سنتِِ مؤکدہ ، واجب کے قریب ہے، احادیثِ مبارکہ میں ترکِِ جماعت پر سخت وعیدیں آئی ہیں، بلاعذر جماعت ترک کرنا گناہ ہے۔

سنن النسائي (2/ 106)
'' قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليكم بالجماعة؛ فإنما يأكل الذئب القاصية»۔ قال السائب: يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة''۔

ابو درداء  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد  ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیوں  کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو۔ حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔

سنن أبي داود (1/ 151)
'' عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سمع المنادي فلم يمنعه من اتباعه، عذر»، قالوا: وما العذر؟، قال: «خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلاة التي صلى»۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مؤذن کی آواز سنے اور کسی عذر کے نہ ہونے کے باوجود مسجد کو  نہ جائے (بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھ لے)  تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔صحابہ نے پوچھا: عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خوف (یعنی دشمن کا) یا مرض۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552)
''(والجماعة سنة مؤكدة للرجال)''۔

فقہاء کرام کے نزدیک جماعت چھوڑنے والے کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی اور وہ گناہ گا رہوگا، بلکہ جو اسے اس عمل پر دیکھیں اور اسے نصیحت نہ کریں وہ بھی گناہ گار ہوں گے۔ 

’’ حلبي کبیر ‘‘ : قال في شرح المنیۃ : وکذا الأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکہا من غیر عذر یعزر ، وترد شہادتہ، ویأثم الجیران بالسکوت عنہ ، وہذہ کلہا أحکام الواجب'' ۔ (ص/۵۰۹ ، فصل فی الإمامۃ)

لہٰذا ہر مسلمان مرد پر ضروری ہے کہ وہ مساجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کرے، اور اس بارے میں قطعاً سستی اور غفلت سے کام نہ لے۔ اور اگر کسی مسلمان کو اس حوالے سے غفلت میں دیکھے تو بہت ہی حکمت اور نرمی کے ساتھ خیرخواہی کے جذبے سے نصیحت کرے، نہ یہ کہ اسے وعیدیں سنائے یا سخت رویہ رکھے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201560

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں