بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر ملکیت گاڑی فروخت کرنا، اور کمیشن پر ملازمت کرنا


سوال

میں دبٔی میں مقیم ہو ں اور ٹرانسپورٹ کمپنی میں بطو ر مارکیٹنگ منیجراور ساتھ میں اکاونٹ کے کام میں بھی مدد کررہا ہو ں یہا ں پر ٹرانسپورٹ کمپنی بینک سے گاڑی خریدتی ہے قسطو ں پر اور پھر ٹرانسپور ٹ کمپنیاں عام افراد (مراد جیسے پاکستانی ،انڈین ، بنگلادیشی حضرات)کو وہی گاڑی قسطو ں پر دیتے ہیں قسطو ں کے دوران یہ گاڑی بینک کی ملکیت ہو تی ہیں اور یہ گاڑیاں بینک سے قسط ختم ہونے کے بعد ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام ہوتی ہے کیو نکہ یہا ں کمرشل گاڑیا ں صرف کمپنی خرید سکتی ہیں یہ سودا صرف زبانی کلام پر ہوتا ہے قانو نی طور پر وہ گاڑی کمپنی کی ملکیت ہو تی ہے۔ اورساتھ میں کمپنی خریدنے والے شخص سے سہولت فراہم کرنےکے عو ض ہر مہینے ۳۰۰ درہم بطورسہو لت یاکرایہ لیتی ہیں ،جس سے کمپنی اپنے اخراجات اور اسٹاف کی تنخواہ دیتی ہے اور ہر شخص جو گاڑی کمپنی سے خریدتا ہے وہ ہر مہینے طے شدہ قسط کمپنی میں جمع کرتا ہے کمپنی اپنے اکاونٹ میں جمع کرتی ہے ، پھر بینک طریقے کے مطابق اس کمپنی کے اکاونٹ سے کٹو تی کرتی ہیں۔اوراگر اس دوران بینک سے قسطوں میں اگر کو ٔی قسط شارٹ ہو جا ۓ تو بینک ۵۰۰ درہم قسط نہ دینے کا جرمانہ لگاتی ہے۔لیکن یہا ں پر ہر ایک کمپنی لازمی طور پر بینک اکاونٹ میں اتنی رقم رکھتی ہیں ،کہ جرمانے کی نو بت ہی نہیں آتی ۔ لیکن اگر گاڑی خریدنے والا شخص کسی مہینے کی قسط شارٹ کرے،تو کمپنی اپنے اکاونٹ سے بینک کو رقم ادا کردیتی ہے،اور اس شخص سےکمپنی ۵۰۰ روپے جرمانہ وصول کرتی ہیں۔ اس کمپنی میں میری ذمہ داری یہ ہے کہ کمپنی کی گا ڑیوں کیلٔے کا م ڈھونڈتا ہو ں جو صبح شام دوسرے کمپنی کے اسٹاف کو پک اینڈ ڈراپ کی سہو لت فراہم کرتی ہیں اور اس کے عوض ہم ان سے مثا ل کے طور پر ۸۰۰۰ رقم وصول کرتے ہیں اگے گاڑی والےکو ہم ۷۵۰۰ روپے ادا کرتے ہیں اس میں سے کمپنی مجھے کمیشن دیتی ہے اور بقیہ رقم کمپنی رکھتی ہے ۔

سوال نمبر۱:  کیا اس طرح سے عام افراد کو کمپنی سے یہ گاڑیاں خریدنا جا یٔز ہے؟

سوال نمبر ۲: کیا کمپنی جو مہینے کے ۳۰۰روپے کرایا یا سہو لت کے عوض لیتی ہیں جایٔزہیں؟

سوال نمبر۳:  کیا کمپنی جو قسط شارٹ ہونے کی صورت میں ۵۰۰ کا جرمانہ لیتی ہے جایٔز ہیں؟

سوال نمبر۴: کیا اس طرح کی ٹرانسپورٹ کمپنی میں نو کری کرنا جایٔز ہیں؟ 

برا ٔے مہربانی فرماکر جلد سے جلد جواب ارسال کرے کیو نکہ یہاں پر بہت سارے ہمارے پاکستانی بھأی اس میں مبتلا ہیں اور میں بھی اس نو کری کی وجہ سے بہت زیادہ ذہنی دبأو کا شکار ہوں

جواب

جواب 1:عام افراد کا آپ کی کمپنی سے گاڑی خریدنا جائز نہیں۔

جواب2:سہولت کے نام سے کوئی رقم لینا جائز نہیں البتہ کمپنی نے بینک سے جتنی رقم پر گاڑی لی ہے اس سے زیادہ پر کسی کو فروخت کرناجائز ہے۔

3۔ناجائز ہے۔

4۔آپ کا کمپنی کے لیے بعوض کمیشن کام ڈھونااور کمپنی کا لوگوں سے زیادہ اجرت لے کر گاڑی والے کو کم دینا جائز ہے۔


فتوی نمبر : 143702200022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں