بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بعض نمازوں میں جہری اور بعض میں سری قراء ت کی وجہ اور پس منظر


سوال

 ہم تین نمازیں قراء ت کے ساتھ اور دو نمازیں بغیر قراءت کے کیوں پڑہتے ہیں؟

جواب

محترم! کوئی بھی نماز قرأت کے بغیر نہیں ہو تی، ہر نماز قرأت کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہے، البتہ تین نمازوں (یعنی فجر، مغرب اور عشاء کی باجماعت فرض نماز ) میں قرأت جہراً ( یعنی بلند آواز سے ) کی جاتی ہے اور دو نمازوں ( یعنی ظہر اور عصر کی باجماعت فرض نماز ) میں قرأت سراً ( یعنی آہستہ آواز میں ) کی جاتی ہے، اصل وجہ تو اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور رسول اللہ ﷺ کا طریقہ یہی ہے۔ البتہ پس منظر اس کا یہ ہے کہ  ابتدا میں رسول اللہ ﷺ تمام نمازوں میں جہری قرأت کرتے تھے تو مشرکین  قرآن کی آواز سن کر آجاتے تھے اور آپ ﷺ کو تکلیف پہنچانے اور تنگ کرنے کے لیے خوب شور مچاتے، زور زور سے اشعار پڑھتے، الٹی سیدھی بکواس کرتے اور گالم گلوچ کرتے تھے، اور وہ اپنے لوگوں کو ایسا کرنے کی باقاعدہ ترغیب دیتے تھے ، تاکہ جب قرآن پڑھا جائے تو وہ لوگ شور شرابا کر کے غالب آجائیں اور آپ ﷺ خاموش ہوجائیں، کیوں کہ قرآن میں توحید کا بیان ہوتا تھا، جس کا سننا ان لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا تھا، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیت نازل کی : ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا﴾  [الإسراء: 110] اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور پاک ﷺ کو یہ حکم دیا کہ  آپ نہ تو ساری نمازوں میں جہری قرأت کریں اور نہ ہی ساری نمازوں میں سری قرأت کریں، بلکہ درمیانی صورت اختیار کریں یعنی اندھیرے میں پڑھی جانے والی نمازوں (فجر، مغرب اور عشاء) میں جہری قرأت کریں، جب کہ دن کی روشنی میں پڑھی جانے والی نمازوں (ظہر اور عصر) میں سری قرأت کریں، لہٰذا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ ظہر اور عصر کی نمازوں میں سری قرأت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ ان اوقات میں مشرکین تکلیف پہنچانے کے لیے بالکل تیار ہوتے تھے، جب کہ مغرب، عشاء اور فجر میں جہری قرأت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ مغرب میں وہ لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہوتے تھے، اور عشاء و فجر میں وہ لوگ سو رہے ہوتے تھے، بعد میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قوت اور شان و شوکت عطا کردی اور کفار کی یہ جرأت نہ  رہی، لیکن مذکورہ حکم باقی رہا  (جیسا کہ طواف میں رمل  ) اور آپ ﷺ دنیا سے پردہ فرمانے تک اسی پر عمل پیرا رہے اور آپ ﷺ کے بعد امت کا یہی عمل متوارث رہا، لہٰذا آپ ﷺ کی اس مواظبت کے سبب فقہاء نے امام کے لیے فجر، مغرب اور عشاء میں جہری قرأت اور ظہر و عصر میں سری قرأت کرنے کو نماز کے واجبات میں سے شمار کیا ہے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 253)

" والأصل في الجهر والإسرار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر بالقراءة في الصلوات كلها في الإبتداء، وكان المشركون يؤذونه، ويقولون لأتباعم: إذا سمعتموه يقرأ فارفعوا أصواتكم بالأشعار والأراجيز وقابلوه بكلام اللغو، حتى تغلبوه فيسكت، ويسبون من أنزل القرآن، ومن أنزل عليه، فأنزل الله تعالى: ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا﴾ [الإسراء: 110] أي لا تجهر بصلاتك كلها، ولا تخافت بها كلها، وابتغ بين ذلك سبيلاً: بأن تجهر بصلاة الليل، وتخافت بصلاة النهار، فكان بعد ذلك يخافت في صلاة الظهر والعصر؛ لاستعدادهم بالإيذاء فيهما، ويجهر في المغرب؛ لاشتغالهم بالأكل، وفي العشاء والفجر؛ لرقادهم، وفي الجمعة والعيدين؛ لأنه أقامهما بالمدينة، وما كان للكفار قوة. (وقوله: وفي العشاء والفجر؛ لرقادهم) وجهه في الفجر ظاهر، وفي العشاء أن السنة تأخيرها إلى ثلث الليل، وهذا إنما يظهر في زمن الشتاء، أما في غيره فالعذر فيها كالمغرب فيما يظهر".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 160)

"(ومنها): الجهر بالقراءة فيما يجهر، وهو الفجر والمغرب والعشاء في الأوليين، والمخافتة فيما يخافت، وهو الظهر والعصر إذا كان إماماً.

والجملة فيه أنه لا يخلو إما أن يكون إماماً أو منفرداً، فإن كان إماماً يجب عليه مراعاة الجهر فيما يجهر، وكذا في كل صلاة من شرطها الجماعة كالجمعة والعيدين والترويحات، ويجب عليه المخافتة فيما يخافت، وإنما كان كذلك؛ لأن القراءة ركن يتحمله الإمام عن القوم فعلاً، فيجهر؛ ليتأمل القوم ويتفكروا في ذلك، فتحصل ثمرة القراءة وفائدتها للقوم، فتصير قراءة الإمام قراءة لهم تقديراً، كأنهم قرءوا. وثمرة الجهر تفوت في صلاة النهار؛ لأن الناس في الأغلب يحضرون الجماعات في خلال الكسب والتصرف والانتشار في الأرض، فكانت قلوبهم متعلقة بذلك، فيشغلهم ذلك عن حقيقة التأمل فلايكون الجهر مفيداً بل يقع تسبيباً إلى الإثم بترك التأمل، وهذا لا يجوز، بخلاف صلاة الليل؛ لأن الحضور إليها لا يكون في خلال الشغل، وبخلاف الجمعة والعيدين؛ لأنه يؤدى في الأحايين مرةً على هيئة مخصوصة من الجمع العظيم وحضور السلطان وغير ذلك؛ فيكون ذلك مبعثة على إحضار القلب والتأمل؛ ولأن القراءة من أركان الصلاة والأركان في الفرائض تؤدى على سبيل الشهرة دون الإخفاء، ولهذا «كان النبي صلى الله عليه وسلم يجهر في الصلوات كلها في الابتداء» إلى أن قصد الكفار أن لا يسمعوا القرآن، وكادوا يلغون فيه، فخافت النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة في الظهر والعصر؛ لأنهم كانوا مستعدين للأذى في هذين الوقتين، ولهذا كان يجهر في الجمعة والعيدين؛ لأنه أقامهما بالمدينة، وما كان للكفار بالمدينة قوة الأذى، ثم وإن زال هذا العذر بقيت هذه السنة كالرمل في الطواف ونحوه؛ ولأنه واظب على المخافتة فيهما في عمره فكانت واجبة؛ ولأنه وصف صلاة النهار بالعجماء وهي التي لا تبين، ولا يتحقق هذا الوصف لها إلا بترك الجهر فيها، وكذا واظب على الجهر فيما يجهر، والمخافتة فيما يخافت، وذلك دليل الوجوب، وعلى هذا عمل الأمة، ويخفي القراءة فيما سوى الأوليين؛ لأن الجهر صفة القراءة المفروضة، والقراءة ليست بفرض في الأخريين؛ لما بينا فيما تقدم". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں