بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلویوں کے ساتھ قربانی کے جانور میں شریک ہونا


سوال

بریلویوں کے ساتھ قربانی کے جانور میں شریک ہونا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بریلوی فرقے کے بارے میں ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ نہیں دیا ہے، البتہ ان میں سے جو عملی بدعات میں مبتلا ہیں انہیں بدعتی کہا جائے گا، اور جو جمہور اہلِ سنت والجماعت سے جداگانہ عقائد رکھتے ہیں انہیں بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ گم راہ اور اہلِ ہویٰ میں سے کہا جائے گا؛ لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ قربانی کے حصوں کے لیے صحیح العقیدہ، نیک صالح لوگ تلاش کیے جائیں، تاہم اگر بریلوی کے ساتھ قربانی میں شرکت کرنی پڑ گئی تو قربانی ادا ہوجائے گی۔ ہاں اگر کسی کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ بلاتاویل شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے، یا جانور ذبح کرتے ہوئے غیر اللہ کا نام لیتا ہے تو اس شخص کے ساتھ قربانی میں شرکت جائز نہیں ہوگی۔

امداد المفتین میں ہے:

’’مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کے متعلقین کو کافر کہنا صحیح نہیں ہے، بلکہ ان کے کلام میں تاویل ہوسکتی ہے، تکفیرِ مسلم میں فقہاء رحمہم اللہ نے بہت احتیاط فرمائی ہے۔‘‘

(فتاویٰ دار العلوم دیوبند، امداد المفتین، 1/142۔ ط: دار الاشاعت، کراچی)

سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ سوال و جواب کی عبارت کے ساتھ درج ذیل ہے:

’’سوال: فرقہ بریلویہ جن کے عقائد مشہور و معروف ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے علمِ غیب کلی عطائی اور آپ ﷺ کو حاضر و ناظر و مختارِ کل مانتے ہیں، نیز آپ ﷺ کو نور مان کر صورۃً بشر کہتے ہیں، علاوہ ازیں نذر لغیر اللہ کو نہ صرف مانتے ہیں، بلکہ اس کی دعوت بھی دیتے ہیں، دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس فرقہ کو مشرک و کافر کہا جائے یا مسلمان مبتدع ضال و مضل؟ 

جواب: کافر و مشرک کہنا مشکل ہے، اکابرِ دیوبند نے ان لوگوں پر ان عقائدِ کفریہ و شرکیہ کے باوجود کفر کا فتویٰ نہیں دیا، اس لیے مبتدع اور ضال مضل کہہ سکتے ہیں، کافر نہیں۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: ولی حسن (21/4/1400)‘‘

جامعہ ہٰذا کے رئیس دار الافتاء مفتی محمد عبدالسلام چاٹ گامی صاحب دامت برکاتہم ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں، جس پر مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کی تصحیح موجود ہے:

’’واضح رہے کہ بریلوی حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کی گم راہی اور غلطی پر ہونے کا فتویٰ دیا جاسکتاہے، لیکن کافر اور مرتد ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا، اور نہ ہی دیوبندیوں میں سے کسی معتبر عالم نے بریلویوں کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا ہے، اس لیے ہم بریلویوں کو مطلقاً کافر نہیں سمجھتے، ضرورت کے تحت ان سے اسلامی تعلقات، نکاح وشادی، کھانا پینا اور دوسرے معاملات کو جائز سمجھتے ہیں، اور ہم اختلاف و انتشار کے قائل نہیں ۔۔۔ البتہ بریلوی حضرات میں سے جو لوگ ہمیں اور اکابرِ دیوبند کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ دیوبندی مسلک کے لوگ ان سے تعلقات نہ رکھیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے سے اتفاق کی جگہ انتشار ہوگا۔

کتبہ: محمد عبدالسلام (10/10/1395)                                                               الجواب صحیح: ولی حسن ٹونکی‘‘

تنوير الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَيُكْرَهُ)... (وَمُبْتَدِعٌ) أَيْ صَاحِبُ بِدْعَةٍ وَهِيَ اعْتِقَادُ خِلَافِ الْمَعْرُوفِ عَنْ الرَّسُولِ لَا بِمُعَانَدَةٍ بَلْ بِنَوْعِ شُبْهَةٍ وَكُلُّ مَنْ كَانَ مِنْ قِبْلَتِنَا (لَا يَكْفُرُ بِهَا) حَتَّى الْخَوَارِجُ الَّذِينَ يَسْتَحِلُّونَ دِمَاءَنَا وَأَمْوَالَنَا وَسَبَّ الرَّسُولِ، وَيُنْكِرُونَ صِفَاتِهِ تَعَالَى وَجَوَازَ رُؤْيَتِهِ لِكَوْنِهِ عَنْ تَأْوِيلٍ وَشُبْهَةٍ بِدَلِيلِ قَبُولِ شَهَادَتِهِمْ، إلَّا الْخَطَّابِيَّةِ وَمِنَّا مَنْ كَفَّرَهُمْ (وَإِنْ) أَنْكَرَ بَعْضَ مَا عُلِمَ مِنْ الدِّينِ ضَرُورَةً (كَفَرَ بِهَا) كَقَوْلِهِ إنَّ اللَّهَ تَعَالَى جِسْمٌ كَالْأَجْسَامِ وَإِنْكَارُهُ صُحْبَةَ الصِّدِّيقِ (فَلَا يَصِحُّ الِاقْتِدَاءُ بِهِ أَصْلًا) فَلْيُحْفَظ."

رد المحتار میں ہے:

(قَوْلُهُ: وَهِيَ اعْتِقَادُ إلَخْ) عَزَاهُ هَذَا التَّعْرِيفِ فِي هَامِشِ الْخَزَائِنِ إلَى الْحَافِظِ ابْنِ حَجَرٍ فِي شَرْحِ النُّخْبَةِ، وَلَا يَخْفَى أَنَّ الِاعْتِقَادَ يَشْمَلُ مَا كَانَ مَعَهُ عَمَلٌ أَوْ لَا، فَإِنَّ مَنْ تَدَيَّنَ بِعَمَلٍ لَا بُدَّ أَنْ يَعْتَقِدَهُ كَمَسْحِ الشِّيعَةِ عَلَى الرِّجْلَيْنِ وَإِنْكَارِهِمْ الْمَسْحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَذَلِكَ، وَحِينَئِذٍ فَيُسَاوِي تَعْرِيفَ الشُّمُنِّيِّ لَهَا بِأَنَّهَا مَا أُحْدِثَ عَلَى خِلَافِ الْحَقِّ الْمُتَلَقَّى عَنْ رَسُولِ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِلْمٍ أَوْ عَمَلٍ أَوْ حَالٍ بِنَوْعِ شُبْهَةٍ وَاسْتِحْسَانٍ، وَجُعِلَ دَيْنًا قَوِيمًا وَصِرَاطًا مُسْتَقِيمًا اهـ فَافْهَمْ."

(كتاب الصلاة، بَابُ الْإِمَامَةِ، ١ / ٥٥٩ - ٥٦٢، ط: دار الفكر)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’دیوبندی اور بریلوی دونوں مسلمان ہیں، آپس میں ان کا نکاح رشتے ناطے سب جائز ہیں‘‘۔ 

(باب الحظر والاباحۃ ج: 10، ص: 390، ط: جمعیت پبلی کیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں