بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

 میں دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں، جہاں پر میرا کاروبار ہے اس علاقےمیں دیوبندی مسلک والوں کی مسجد قریب نہیں ہے، اور ہماری دکان کے ساتھ ہی ایک مسجد ہے جو کہ بریلوی مسلک والوں کی ہے. سوال یہ ہے کہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لہذاعرض ہے کہ میں بریلوی مسلک والوں کے پیچھے جماعت کے ساتھ نمازادا کرسکتاہوں یا کہ اپنی نماز الگ پڑھوں؟ برائے کرم مجھے اس مسئلے کے بارے میں مستفید فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کی اقتدا میں نماز کے جوازاورعدمِ جواز کا تعلق اس کے عقیدے اور نظریہ سے ہے؛ لہٰذا اگر کسی کا عقید ہ حدِکفر تک نہ پہنچا ہو تو اس کی اقتدا  میں نماز جائز ہے اورعقیدہ حدِکفر تک پہنچا ہوا ہو تو اس کی اقتدا میں نماز نہیں ہوگی، اور ہمارے علماء نے مطلقاً بریلویوں کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا ہے، بلکہ انہیں اہلِ بدعت شمار کیا ہے، اس لیے اگر آپ کی دکان کے قریب اہلِ حق کی کوئی مسجد نہیں ہے، اور آپ کی دکان کے قریب جو مسجد ہے وہاں کے امام کے عقائد کفریہ نہیں ہیں، یا آپ کو ان کے عقائد کا یقینی طور پر علم نہیں ہے تو ان کے پیچھے نماز پڑھاکریں، جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے گی،  تنہا نماز ادا نہ کریں۔ البتہ اگر آپ کو علم ہو کہ وہاں کے امام کے عقائد کفریہ ہیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہو گا، اس صورت میں اگر کہیں اور صحیح العقیدہ امام کی اقتدا میں نماز کا موقع نہ ہو تو آپ اکیلے نماز پڑھ لیا کریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200709

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں