بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی مکتبہ فکر کی مسجد میں نماز ادا کرنا


سوال

اگر پاس میں دیوبندیوں کی کوئی مسجد نہ ہو توبریلویوں کی مسجدمیں بریلوی امام کے پھیچے نماز پڑھنا صحیح  ہے کہ نہیں؟

جواب

کسی شخص کی اقتدا میں نماز کے جوازاورعدمِ جواز کا تعلق اس شخص کے عقیدے اور نظریہ سے ہے، لہذا اگر بریلوی مسلک  کا امام  شرکیہ عقائد نہیں رکھتا صرف بدعات میں مبتلا ہےتو اس کی امامت مکروہِ تحریمی ہے، صحیح العقیدہ  امام مل جائےتو ایسے  امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے ، جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے ، اور اس نماز کے اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، البتہ متقی پرہیزگار  کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے  اتنا ثواب نہیں ملے گا.

اور اگر بریلوی مسلک کا  امام شرکیہ عقائد میں مبتلا ہو تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔ البتہ جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں ہوگا۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں اگر نماز کا وقت ہوجائے اور قریب میں کوئی ایسی مسجد نہ ہو جہاں صحیح العقیدہ امام موجود  ہو، تو جماعت ترک نہیں کرنی چاہیے، بلکہ بریلوی امام کے پیچھے ہی نماز ادا کرلی جائے ، نماز ہوجائے گی ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):

"(ويكره) تنزيهاً (إمامة عبد ... وفاسق ... ومبتدع) أي صاحب بدعة، وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول، لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا، (لايكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته ؛ لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم ... هذا إن وجد غيرهم، وإلا فلا كراهة بحر، بحثاً. وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة ... زاد ابن ملك: ومخالف كشافعي، لكن في وتر البحر: إن تيقن المراعاة لم يكره، أو عدمها لم يصح، وإن شك كره.

 (قوله: ويكره تنزيهاً إلخ)؛ لقوله في الأصل: إمامة غيرهم أحب إلي، بحر عن المجتبى والمعراج، ثم قال: فيكره لهم التقدم؛ ويكره الاقتداء بهم تنزيهاً؛ فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل، وإلا فالاقتداء أولى من الانفراد ... (قوله: بل بنوع شبهة) أي وإن كانت فاسدةً، كقول منكر الرؤية بأنه تعالى لايرى لجلاله وعظمته ... (قوله: إن وجد غيرهم) أي من هو أحق بالإمامة منهم، (قوله: بحر، بحثاً) قد علمت أنه موافق للمنقول عن الاختيار وغيره، (قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع؛ لحديث: «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي». قال في الحلية: ولم يجده المخرجون، نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعاً: «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم» ... مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوه: هل يكره أم لا؟ وظاهر كلام شرح المنية أيضاً حيث قال: وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع كالشافعي فيجوز ما لم يعلم منه ما يفسد الصلاة على اعتقاد المقتدي، عليه الإجماع، إنما اختلف في الكراهة ... وبحث المحشي أنه إن علم أنه راعى في الفروض والواجبات والسنن فلا كراهة، وإن علم تركها في الثلاثة لم يصح، وإن لم يدر شيئاً كره ؛ لأن بعض ما يجب تركه عندنا يسن فعله عنده، فالظاهر أن يفعله ... فتحصل أن الاقتداء بالمخالف المراعى في الفرائض أفضل من الانفراد إذا لم يجد غيره، وإلا فالاقتداء بالموافق أفضل".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 7):

" الحاصل: أنه إن علم الاحتياط منه في مذهبنا فلا كراهة في الاقتداء به، وإن علم عدمه فلا صحة، وإن لم يعلم شيئاً كره". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں