بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی امام کا عقیدہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا


سوال

بریلوی کے عقیدہ کو ہم  کیسے پہچانیں گے  کہ اس کے عقیدہ کی وجہ سے میری نماز نہیں ہوتیَ؟

جواب

جواب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ آپ کے سابقہ سوال کے جواب میں بھی یہ حکم لکھ دیا گیا تھا کہ بریلویوں کے بعض غلط عقائد کی وجہ سے ان کے گم راہ ہونے کا فتویٰ دیا گیا ہے، ان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا گیا ہے، اس لیے ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے ادا ہوجائے گی۔ 

بہرحال جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں ہوگا،  لیکن ایسے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہ ہوگا ، البتہ  اگر نماز کا وقت ہوجائے اور قریب میں کوئی ایسی مسجد نہ ہو جہاں صحیح العقیدہ امام موجود  ہو، تو جماعت ترک نہیں کرنی چاہیے، بلکہ بریلوی امام کے پیچھے ہی نماز ادا کرلی جائے ، نماز ہوجائے گی ، تاہم صحیح العقیدہ متقی پرہیزگار امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے اتنا ثواب نہیں ملے گا۔

اگر یقین سے معلوم ہوجائے بایں طور پر کہ خود اس کا عقیدہ معلوم ہو ، یا اس کے اقرار اور مجمع میں بیانات سے اندازہ ہو، یا کسی بھی اور یقینی ذریعہ سے معلوم ہوگیا ہو تو   تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

بریلوی امام کی اقتدا کا حکم


فتوی نمبر : 144103200428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں