کسی ڈیری فارم والے کے کہنے پر زید نے ایک دوکان دار کو تیار کیا کہ اپنی دوکان میں اس ڈیری فارم والے کا دودھ بیچنے کے لیے رکھے، زید کی بات ڈیری فارم والے سے سالانہ 75 لاکھ میں ہوئی تھی، جب کہ زید نے 10 لاکھ کمیشن رکھ کر دوکان دار کو 85 لاکھ پر تیار کیا اور کہا کہ آخر میں 10 لاکھ آپ نے مجھے دینے ہیں، 10 لاکھ کمیشن دینے پر دوکان دار راضی بھی ہے، لیکن ڈیری فارم والے کو اس کا علم نہیں ہے، کیا زید کے لیے اس طرح 10 لاکھ روپے کمیشن لینا جائز ہے؟
مذکورہ صورت میں اگر زید نے ڈیری فارم والے کے وکیل کی حیثیت سے دوکان دار سے معاملہ کیا تھا تو پھر زید صرف وکالت کی اجرت کا مستحق ہوگا، یہ اضافی کمیشن لینا جائز نہ ہوگا، اور اگر زید کی حیثیت بروکر کی تھی، اور اس سلسلے میں کوئی معتد بہ چلت پھرت بھی کی ہو تو بروکری کے طور پر یہ رقم لینا جائز ہوگا، بشرطیکہ اپنی اجرت پہلے سے متعین کردی ہو۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"و أما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجزته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف، وتمامه في شرح الوهبانية". (ج:4، ص: 560، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200133
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن