بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بروکری کی جائز اور ممنوع صورت


سوال

کیا فرماتے هیں علماۓ کرام اور مفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک ڈیلر ہے، ان کا اے جی ایس اوساکا بیٹریوں کا کاروبار ہے، اس نے کہا ہے کہ آپ همارے اس کام کے لیے مارکیٹنگ بروکری کریں، آپ کے ذریعے جتنے بھی گاہک آئیں گے اور مال لیں گے، آپ کو ایک فیصد منافع دوں گا، بعد میں وہ گاہک چاہے آپ سے رابطہ بھی نا کرے، براہِ راست هم سے رابطہ کرے اور وہ جب تک مال لیتا رہے گا، آپ کو هم ایک فیصد منافع دیتے رہیں گے، کیا اس طرح منافع شریعتِ محمدیہ کے موجب صحيح ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب تک گاہک سائل کے ذریعے  مال لے تو اس کے لیے اجرت لینا حلال ہوگا،  اور جب گاہک ڈیلر سے براہِ راست رابطہ کرکے مال لے تو سائل کے لیے نفع لینے کا حق  نہیں ہوگا۔

لما في رد المحتار، كتاب الإجرة:

"(قوله: إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر".

[مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا (6/95) سعيد]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں