بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

برانڈڈ گھڑیوں کی کاپی فروخت کرنا


سوال

ایک صاحب کی گڑھیوں کی دکان ہے اور وہ برانڈڈ ( branded ) گھڑیوں کی سکینڈ ( second )کاپی کا کاروبار کرتے ہیں، دریافت طلب بات یہ ہے کہ جو وہ اصل گھڑی ہے اس کی قیمت لاکھوں میں ہوتی ہے؛ کیوں کہ وہ کمپنی اپنا لوگو (logo ) خریدنے کے لیے کئی لاکھ خرچ کر تی ہے اور جو گھڑی  یہ بیچتے ہیں ایسی ہی کمپنی کی کاپی ہے اور یہ برانڈڈ گھڑی سے بہت کم قیمت میں ہوتی ہے،  کیا اس طرح کاروبار کرنا صحیح ہے اور اس طرح اس کمپنی کا لوگو (logo) استعمال کر ناصحیح ہے؟  حال آں کہ نہ تو اصل کمپنی کو اس سے ضرر ہے اور نہ مشتری کو دھوکا ہے اور یہ کاروبار کئی مسلمان کرتے ہیں تو  کیا عموم بلوی کی وجہ سے کچھ گنجائش نکل سکتی ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں برانڈڈ گھڑیوں کی کاپی (فرسٹ یا سیکنڈ کاپی)فروخت کرتے ہوئے اگر گاہک کو بتادیا جائے کہ یہ اصل(برانڈڈ) نہیں اور قیمت بھی نقل(کاپی) والی  وصول کی جائے تو اس کا کاروبارکرنا جائز ہے، اور اگر گاہک کو لاعلم رکھ کر کاپی(نقل) فروخت کی جائے اور قیمت اصل(برانڈڈ) والی وصول کی جائے تو ایسا کرنا ناجائز  اور دھوکا دہی ہے اور ایسی کمائی میں نقل(کاپی) کے بقدر قیمت تو حلال ہوگی، اس سے زائد قیمت فروخت کرنے والے کے لیے حرام ہوگی۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (5 / 47):
"فروع

لايحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام إلا في مسألتين: الأولى الأسير إذا شرى شيئًا ثمة ودفع الثمن مغشوشًا جاز إن كان حرًّا لا عبدًا.  الثانية يجوز إعطاء الزيوف والناقص في الجبايات، أشباه". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012201985

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں