بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف کا سبب


سوال

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف کیوں ہوا؟ براۓ مہربانی مدلل جواب سے آگاہ فرمائیں۔ اور کوئی کتاب اس بارے میں مفید ہو تو نام ضرور بتائیں۔

جواب

واضح رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  اللہ تعالیٰ کے چنیدہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا اور اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام کے تمام صحابہ کرام عادل تھے، اور  صحابہ کرام کے درمیان اگر کسی موقع پر ظاہری اختلاف یا نزاع کی صورت تاریخ کے اوراق میں نظر آتی ہے تو اس کا سبب ذاتی یا دنیاوی مفاد ہر گر نہیں تھا،  بلکہ اس کا سبب کسی دینی معاملہ میں اجتہاد کا فرق  تھا۔

پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والے ظاہری نزاع کا اصل سبب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے قصاص لینے کا معاملہ تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی  خلافت کو مضبوط کرنے کے بعد قصاص لینا چاہتے تھے، فوری قصاص لینے کو خلافتِ اسلامیہ کے لیے نقصان دہ تصور کررہے تھے، جب کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کہنا یہ تھا کہ اگر فوری قصاص نہ لیا تو لوگ بقیہ صحابہ و اکابرینِ امت پر دست درازی کرنے کے سلسلہ میں جری ہو جائیں گے، اس اجتہادی اختلاف کی بنا پر معاملہ آگے بڑھتا گیا اور نوبت جنگ تک جا پہنچی،  مگر اس جنگ کی بناء پر دونوں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک پر طعن و تشنیع کرنا شرعاً جائز نہیں اور آخرت میں وبال کا باعث ہے اور اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان دونوں طرف کے حضرات حق پر تھےا ور دونوں طرف کے جو حضرات  بھی ان جنگوں میں کام آئے، وہ شہید ہیں۔

مزید تفصیل کے لیے علامہ ابن کثیر کی  "البدایہ والنہایۃ" اور دیگر مستند  کتبِ تاریخ کا مطالعہ کریں۔

"المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج" میں ہے:

"وأما شك الأعمش فهو غير قادح في متن الحديث فإنه شك في عين الصحابي الراوي له وذلك غير قادح لأن الصحابة رضي الله عنهم ‌كلهم ‌عدول."

(كتاب الايمان، ج:1، ص:222، ط:دار إحياء التراث العربي)

"إعلام الموقعين "ميں ہے:

"وقال عبد الله بن مسعود: ‌من ‌كان ‌منكم ‌مستنا فليستن بمن قد مات، فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة، أولئك أصحاب محمد أبر هذه الأمة قلوبا، وأعمقها علما، وأقلها تكلفا، قوم اختارهم الله لصحبة نبيه وإقامة دينه، فاعرفوا لهم حقهم، وتمسكوا بهديهم، فإنهم كانوا على الهدى المستقيم."

(القول في التقليد وانقسامه، ج:2، ص:141، ط:دار الكتب العلمية)

شرح العقائد النسفيۃ میں ہے:

"وما وقع من المخالفات و المحاربات لم يكن من نزاعٍ في خلافته، بل عن خطاء في الإجتهاد."

و في هامشه:

"والمقصود منه دفع الطعن من معاوية و من تبعه من الأصحاب و عن طلحة و زبير و عائشة؛ فإن الواجب حسن الظن بأصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم و اعتقاد براءتهم عن مخالفة الحق؛ فإنهم أسوة أهل الدين و مدار معرفة الحق و اليقين."

(شرح العقائد، ص:١٥٢، ط:المصباح)

النبراس على شرح عقائدمیں ہے:

"خصه بالذكر؛ لأن حربه أشهر من حرب الباقين؛ و الخطاء هو الاستعجال في طلب قصاص عثمان رضي الله عنه زعماً أن التاخير يوجب جرءة العوام على الأكابر، و كثيراً ما يفوت المطلوب... الخ."

(ص: 502، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں