بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت خضر علیہ السلام


سوال

 مفتی صاحب میں ایم بی بی ایس کا طالب علم ہوں۔ اسلامی اور تاریخی علوم سے میرا بہت لگاؤ ہے ۔ لہٰذا میں نے معارف القرآن اور دیگر کئی کتابیں پڑھ  لی ہیں۔لیکن درج ذیل سوال کا دوٹوک جواب کہیں  نہیں ملا۔

1:کیا حضرت خضر  علیہ السلام  اب تک موجود ہیں؟

2:کیا وہ نبی  ہیں ؟

3:کیاان سے ملاقات کے لیے صیحیح حدیث یا  سلف صالحین سے ملنے کی کوئی دعا وغیرہ ہے ؟

جواب

1 :حضرت خضر علیہ السلام  کی حیات اور  موت سے  ہمارا کوئی اعتقادی یا علمی مسئلہ متعلق نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے،  اس لیے کہ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کوئی صراحت نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ علماءِ امت میں اس بارے میں اختلاف ہے۔

محدثین کی ایک جماعت حضرت خضر علیہ السلام کی  اس وقت دنیاوی حیات کا انکار کرتی ہے،  جب کہ جمہور علماء و صلحاء  حضرت خضر علیہ السلام کی  حیات  کے  قائل  ہیں۔

2 : حضرت خضر علیہ السلام کاحضرت موسی علیہ السلام کے  ساتھ جو واقعہ قرآن پاک میں ہے اس میں حضرت خضر علیہ السلام کے بعض ایسے افعال کا تذکرہ ہے جو قطعی طور پر ظاہرِ شریعت کے خلاف ہیں اور شریعت کے خلاف کام کرنے کا استثناء  صرف وحی الہی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے جو  انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے؛  لہذا جمہور امت کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے،  البتہ ان کو کچھ تکوینی خدمتیں بھی من جانب اللہ  سپرد  کی گئی تھیں۔

3 : حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے لیے کسی خاص دعا کااحادیث  میں وارد ہونا معلوم نہ ہوسکا۔ بزرگوں سے کچھ اعمال منقول ہیں،  مگر وہ ان کے تجربات پر مبنی ہیں۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (2 / 60):

"والصحيح أنه نبي، وجزم به جماعة. وقال الثعلبي: هو نبي على جميع الأقوال معمر محجوب عن الأبصار، وصححه ابن الجوزي أيضا في كتابه، لقوله تعالى حكاية عنه: {وما فعلته عن امري} (الكهف: 82) فدل على أنه نبي أوحي إليه، ولأنه كان أعلم من موسى في علم مخصوص، ويبعد أن يكون ولي أعلم من نبي وإن كان يحتمل أن يكون أوحي إلى نبي في ذلك العصر يأمر الخضر بذلك، ولأنه أقدم على قتل ذلك الغلام، وما ذلك إلا للوحي إليه في ذلك. لأن الولي لا يجوز له الإقدام على قتل النفس بمجرد ما يلقى في خلده، لأن خاطره ليس بواجب العصمة. السادس: في حياته: فالجمهور على أنه باق إلى يوم القيامة.

فتح الباري لابن حجر (6 / 434):

"و قال بن الصلاح هو حي عند جمهور العلماء والعامة معهم في ذلك وإنما شذ بإنكاره بعض المحدثين وتبعه النووي وزاد أن ذلك متفق عليه بين الصوفية وأهل الصلاح وحكاياتهم في رؤيته والاجتماع به أكثر من أن تحصر انتهى."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں