بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس شخص کے بارے میں شک ہوکہ شرک میں مبتلا ہے، اس کی اقتدا میں نماز اور اس سے لین دین کا حکم


سوال

کیا بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنا یا پھر ایسے شخص کے پیچھے جس کے بارے میں آپ کو شک ہو کہ یہ شرک میں مبتلا ہو نماز پڑھنا یا کاروباری لین دین کرنا کیسا ہے؟

جواب

بدعتی امام کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے؛  اس لیے کسی صالح اور متبعِ سنت امام کے پیچھے نماز پڑھنا لازم ہے۔البتہ اگر کہیں اور باجماعت نماز کا موقع میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ 

اگر کسی امام کے بارے  میں مشرک ہونے کا شک ہو اور شک کی کوئی معتبر وجہ اور بنیاد بھی ہو تو احتیاط اس میں ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے، بلکہ انفرادی نماز پڑھ لی جائے۔

اہلِ بدعت سے تعلق اور معاملات کے حکم کی تفصیل سے پہلے یہ جان لیجیے کہ کسی سے معاملے کی پانچ قسمیں ہوسکتی ہیں:

1۔ موالات:  یعنی دوستی اور دلی تعلق۔

2۔ مدارات:  یعنی ظاہری خوش اخلاقی ۔

3۔مواساۃ:  یعنی غم خواری، احسان ونفع رسانی۔

4۔ معاملات:  یعنی خرید وفروخت۔

5۔ مناکحت:  باہم نکاح کرنا۔
ان معاملات میں تفصیل یہ ہے :

1۔ موالات (یعنی قلبی دوستی) تو کسی حالت میں جائز نہیں ۔

2۔  مدارات (یعنی خوش اخلاقی) تین حالتوں میں درست ہے ، ایک دفعِ ضرر(یعنی نقصان سے بچنے )کے واسطے ۔ دوسرے اس  کی دینی مصلحت یعنی ہدایت کی توقع کے واسطے۔  تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے ۔ اور اپنی مصلحت یا مالی منفعت یا جاہ کے لیے درست نہیں، خصوصاً جب کہ دینی ضرر (نقصان) کا بھی خوف ہوتو بدرجہ اولیٰ یہ اختلاط حرام ہوگا ۔

3۔  مواساۃ (یعنی احسان ونفع رسانی) کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کفار کے ساتھ ( یعنی جن کفار سے جنگ وقتال ہے ان کے ساتھ) ناجائز ہے، اور غیر اہلِ حرب کفار کے ساتھ جائز ہے۔ اور یہی حکم فساق اور اہلِ بدعت کا ہے ۔( مأخوذ از بیان القرآن :ص۱۱؍ج۳، آل عمران)

4۔معاملات (خرید و فروخت) کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں صالح مسلمانوں کے معاشرے کو نقصان نہ ہوتاہو تو باہم خریدوفروخت بھی جائزہے۔(مستفاد از معارف القرآن)

5۔ مناکحت کا حکم یہ ہے کہ جو بدعت کفر تک نہ پہنچائے ایسے اہلِ بدعت سے گو نکاح حرام نہیں، بلکہ جائز ہے، لیکن اگر اہلِ بدعت کی اصلاح کی امید نہ ہو تو ان سے نکاح کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس بات کی امید ہو کہ اچھے سلوک اور اچھے اخلاق کی وجہ سے متاثر ہوکر اہل بدعت آپ سے جڑ جائیں گے اور اپنی بدعت سے توبہ کرلیں گے تو ان سے تعلق رکھنا چاہیے اور ان کا خوب اکرام کرنا چاہیے۔  لیکن اگر اس بات کی بالکل کوئی امید نہ ہو اور ان سے تعلق رکھنے کی صورت میں اپنے بگڑنے کا اندیشہ ہو اور قطع تعلقی کرنے کی صورت میں ان کو اور دیگر لوگوں کو  عبرت ہونے اور توبہ کرنے کی امید ہو تو اس صورت میں ان سے قطع تعلقی کر لینی چاہیے؛ تاکہ وہ راہِ راست پر آجائیں۔

 ایسے لوگ جو علانیہ گناہوں یا بدعات  کاارتکاب کرنے والے ہوں اوراپنے عمل سے باز نہ آتے ہوں، ان سے میل جول، بات چیت ترک کردینا شریعت میں ثابت ہے، لہذا اس صورت میں ان کے ساتھ  اصل ہم دردی یہی ہے کہ انہیں راہِ راست پرلانے اور دیگرلوگوں کی عبرت کے لیے ان سے قطع تعلق کیاجائے، ایسے لوگوں کے ساتھ  تعلق قائم رکھ کر ہم دردی کرنا  گناہ اور غلط کاموں میں معاونت اوران کی حوصلہ افزائی ہے، اور بعض صورتوں میں یہ مداہنت اور اہلِ بدعت و معاصی کی طرف میلان بھی بن جاتاہے۔

"فتح الباری" میں ہے:

"(قوله: باب ما يجوز من الهجران لمن عصى )

 أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز؛ لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع، فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها".

(فتح الباری،10/497،ط:دارالمعرفة بیروت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں