بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدعت کی اقسام اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقولہ کا مطلب


سوال

" كل بدعة ضلالة"  کا مطلب کیا ہے ؟ اور بدعت کتنی قسم کی ہوتی ہیں ؟ کیوں کے حضرت عمر کا قول تراویح کے بارے پیش کیا جاتا ہے کہ  "یہ کتنی اچھی بدعت ہے"  اور ایک حدیث پیش کی جاتی ہے جو کچھ اس طرح ہے:

”جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ  اختیار کرے، اس کے لیے ثواب ہے اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے،  اس کا ثواب بھی اس کو  ملے گا اور ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں  ہوگی  اور جس کسی نے برا نیا طریقہ اختیار کیا تو  اسے اس کا گناہ ملے گا اور بعد میں کرنے والوں کا بھی ملےگا۔“

  ( مسلم ص ۳۹۴ حدیث ۱۰۱۷ )

اس بارے میں آپ راہ نمائی فرمادیں!!

جواب

بدعت کا ایک لغوی معنی ہے اور ایک اصطلاحی معنی ہے،   لغوی معنی کے اعتبار سے   ہر نئی ایجاد  اور  ہر نئے کام کو ”بدعت“ کہتے ہیں، خواہ عادت ہو یا عبادت ،   جن لوگوں نے  بدعت  کے یہ معنی  مرادلیے  ہیں،  انہوں نے بدعت کی تقسیم دو قسم میں کی ہے: (1)  سئیہ  (بُری) (2)  حسنہ ( اچھی)،  جن فقہا ء کے کلام میں بعض بدعت کو ”بدعت ِ حسنہ“  کہا گیا ہے،  وہ اس لغوی  معنی کے اعتبار سے ہے۔ 

اور شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں: ” دین میں کسی کام کا زیادہ یا کم کرنا،  جس کی اصل کتاب وسنت سے نہ ہو، اور جو  صحابہؓ،  تابعین اور تبع تابعین کے دورکے بعد ہوا ہو ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو، نہ قولا،  ًنہ فعلاً، نہ صراحتاً، نہ اشارۃً ، اور اس کو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے“،  اس اصطلاحی  معنی میں جو بدعت ہو،  وہ ہمیشہ سئیہ ہی ہوتی ہے، یہ حسنہ  نہیں ہوتی۔

فقہاء کرام بھی جب مطلق بدعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے یہی مصطلح معنی مراد ہوتا ہے، اور احادیث میں بھی جس بدعت کی مذمت بیان کی گئی ہے،  اس سے بھی یہی مراد ہے۔

باقی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ  تراویح  باجماعت پڑھنے کا خود آںحضرت ﷺ سے ثبوت موجود ہے جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے:

صحيح البخاري (9/ 95)
 "عن زيد بن ثابت: أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي حتى اجتمع إليه ناس، ثم فقدوا صوته ليلة،۔۔۔ الخ"

اب جب کہ تراویح باجماعت کا ثبوت خود شارع علیہ السلام سے موجود ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا تراویح باجماعت  کو  "نعمت البدعة هذه" كہنا بدعت مصطلح تو نہیں ہوسکتا، البتہ اس کو ”لغوی بدعت“ کہا جاسکتا ہے، اور وہ اس طور پر کہ چوں کہ حضور ﷺ نے مسلسل پورا مہینہ  تراویح کی نماز باجماعت ادا نہیں فرمائی، اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ نے پورے ماہ باجماعت تراویح کا اہتمام کیا، اس بنا پراس کو    "نعمت البدعة هذه" فرمادیا، اور خود ہمیں  خلفائے راشدین رضوان اللہ علہیم اجمعین کی  اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ ورنہ مصطلح بدعت ہمیشہ سئیہ ہوتی ہے۔(ماخذ فتاوی جامعہ)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں