میرے امی کے خاندان والے دِین دار نہیں ہیں، بعض عجیب و غریب خیالات کے حامل ہیں، جس کی وجہ سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے، اور کفر کا بھی شک ہوتا ہے، جب میں نے اپنی خالہ سے بات کی کہ اسلام میں خواتین کے لیے گھر میں رہنے کا حکم ہے، کمانے کی ذمہ داری مردوں پر ہے، تو ان کی مسکراہٹ اور کھل کھلانا استہزا پر مبنی تھا، جیسے ان سے کوئی نا واقف بات کر رہا ہو، نانا اور ماموں بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں، عورتوں مردوں کے شانہ بشانہ اور کمانے کے قائل ہیں، نانی دِین دار خاندان سے ہیں، مگر صحبت کا اثر ان پر بھی ہو گیا ہے، وہ مجھے کام کرنے کی نصیحت کرتی ہیں، مجھے اکثر اپنی والدہ کے ساتھ اکیلے کمرے میں رہنا پڑتا ہے، کیوں کہ یہ لوگ دوسرے کمرے میں خاندان کے افراد کی غیبت کر رہے ہوتے ہیں، میں ان باتوں پر دیہان نہ دینے کی کوشش میں دوسرے کاموں جیسے فون، پڑھائی میں لگ جاتا ہوں، میں ان لوگوں کے لیے دعا بھی کرتا ہوں، اور انہیں نصیحت کرنے میں آپے سے باہر ہوجاتا ہوں، جب سامنے والا بحث کرتا ہے یا باطل تاویلات پیش کرتا ہے۔
شریعتِ مطہرہ نے عورت کی ذمہ داری اس کے باپ، بھائی، شوہر یا بیٹے پر رکھی ہے، البتہ اگر اس کے مالی اخراجات اٹھانے کے لیے ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو اس صورت میں عورت کو اپنی ضروریاتِ زندگی کے اسباب کی تلاش کے لیے با پردہ رہ کر ایسی جگہ نوکری کی اجازت دی ہے جہاں نا محرم مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہوتا ہو، نیز اللہ رب العزت نے سورہ حجرات میں صراحت کے ساتھ غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے، اور اسے اپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے، اسی طرح احادیث میں بھی اس قبیح عمل پر شدید وعیدات وارد ہوئی ہیں، لہذا آپ کے ننہیالی رشتہ داروں کو اپنے نظریات و اعمال درست کرنے چاہییں۔
تاہم اس سلسلہ میں حکمت و دانائی سے کام لینے کی ضرورت ہے، غصہ یا آپے سے باہر ہونے کے نتیجہ میں اصلاح سے زیادہ بگاڑ کا اندیشہ ہے، لہذا اس حوالے سے کسی مستند مفتی صاحب سے بالمشافہ ملاقات کرکے ان سے مسلسل مشورہ لیتے رہیں اور ان کی راہ نمائی کے مطابق کوشش جاری رکھیں اور پورے اخلاص کے ساتھ اپنے ننہیال کی ہدایت کی دعا کرتے رہیں، اللہ کی ذات سے قوی امید رکھیں کہ وہ ان کی ہدایت کی کوئی صورت پیدا فرمادے گا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200704
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن